Saturday, September 8, 2012

بھنور

           ساون کی جھڑی کو آج دوسرا دن تھا اور چکنی مٹی  کےسارے رستے جو اپنی سختی کےاعتبار سے تارکول کی  بنی پکی سڑک سے کسی طور کم نہیں ہوتے، "نونے حلوائی" کے ہاتھ کی بنی تازہ  برفی کی طرح نرم ہو چکے تھے۔ سائیکل کو گھسیٹتے گھسیٹتےمیں تھک چکا تھا اور چوہدری کے کہنے کے باوجود  اس کو رستے میں کسی کے ہاں چھوڑنے پر تیار نہیں تھا۔آخر کار اسےغصہ آیا اور اس نے سائیکل مجھ سے چھین کر رستے میں ایک ٹیوب ویل کے حوض میں پھینکی اور بستہ اپنے کاندھوں پہ چھڑہاتے ہوئے کہنے لگا کہ چل شرط لگاتے ہیں کہ کون پہلے گھر پہنچتا ہے۔ہم دونوں نے کھیڑیاں اتاریں اور لنگوٹ کس کر ایک دو تین دُھڑکی لگا دی۔ دس بارہ منٹ میں ہمارے پسینے یوں چوٹ رہے تھے جیسے کسی پرنالےکے نیچھے سے ابھی ابھی نکلے ہوں۔اِس دوڑ کا فیصلہ توکوئی نہیں ہو سکا تھا مگر گاؤں تک کا فاصلہ ضرور کم ہو گیا۔ سامنے بند تھا اور اُس کے اس طرف  ندی کنارے ہماراگاؤں۔اُسےگھر چھوڑنے کے بعد میں سیدھا ڈھیرے پہ  جانے والی پگڈنڈی کو ہونے ہی لگا تھا کہ اُس طرف سے ابّا دوڑتا ہوا نظر آیا۔ابّے کو دوڑتا ہوا دیکھ کر پہلے تو میں ذرا سا ٹھٹکا  اورساتھ ہی اُس کی طرف دوڑ لگا دی ۔ابّےنے ہاتھ کے اشارے سے تسلی دیتے ہوئے  وہیں رکنے کو کہا،لیکن میں کب رکنے والا تھا،سیدھا اُس کے پاس جاکر کے ہی دم لیا۔ ابّے کو تسلی دے کر وہیں سے واپس بھیج میں اُلٹےپاؤں چوہدری کی طرف ہو لیا۔ وہ ہاتھ میں صابن تولیہ لیے غسل خانے کی اورجا ہی رہا تھا کہ مجھ گھبرایا ہوا دیکھ کر اک دم ٹھٹک گیا۔"تو جلدی سےاتھری لے کر سیدھا ندی کی طرف نکل ،میں ماں جی کو خبرکر کے ابھی آیا"چوہدری مجھے ہدایت نامہ دے کراندر چلا گیا اور میں واپس ڈھیرے کی طرف ہو لیا۔
           سب سے پہلے کس گاؤں میں اعلان کروایا جائے چوہدری؟ میں نے اتھری کی لگام  تھامےکہا۔"اُس کی کوئی ضرورت نہیں،بس توارد گرد نظر دوڑاتا رہیں اوردعا کر کہ بگا انہیں نکال دوسرے کنارے نہ لے گیا ہو "اُس نے پاؤں رکاب سے نکال کر مجھے ہاتھ دیتے ہوئے کہا ۔میں اُچھل کر اُس کے پیچھے جمع کر بیٹھ  لیا۔اگرچہ ندی کے ساتھ باقاعدہ کوئی سڑک تو نہیں تھی مگر ریت بھرنے واسطے آنے والے ٹریکٹر ٹرالیوں کی وجہ سے اس کے کنارے کنارے دو متوازی پگڈنڈیاں بن چکیں تھیں،جو بلکل ریل گاڑی کی پٹریوں کی طرح ساتھ ساتھ چلتیں تھیں اور ان کے درمیان سوکھی ہوئی گھاس جسے ساون کی پہلی برسات نے دھو کرنکھارتو دیا تھا مگر اس کی قسمت میں پھر جڑ سےپھوٹنا ہی لکھا تھا،اُسی کے اوپر اتھری چاروں پیرہوئی ہوا سے باتیں کر تی جا رہی تھی۔ کوئی بیس پچیس منٹ بعد ندی  سیدھی نہر میں جا  کر گم ہو گئی اور اس کے ساتھ ہی پگڈنڈیاں سولنگ کی بنی سڑک میں بدل گئیں جس پہ تیز رفتار اتھری کی کھریاں زخمی ہونے کا خطرہ تھا اس لیے میں نے چوہدری کو رفتار کم کرنے کو کہا جس کو اُس نے بلا چون و چرا  مان لیا اور تھوڑی دیر بعد ہمارے سامنے سوہنی کا بپھرا ہوا چناب تھا"اِس سے آگے جانے کی تو کوئی تُک نہیں بنتی"۔چوہدری نے اتھری کی لگام کھینچتے ہوئےاکھڑے ہوئے لہجے میں  کہا۔"میرے خیال سے تو  تیر کر اس کنارے ہو لے اور وہاں سے واپس  کی طرف ہر گاؤں کی مسیت میں اعلان کرواتا جا اور میں اِس طرف سے "میں نے کہا۔ چوہدری نے مجھے گھور کر دیکھا اور کہنے لگا کہ تیرا دماغ تو ٹھکانے ہے کہ نہیں؟یہ نہر ہے اور چناب میں گرتے ہوئے اِس کا تیز بہاؤ مجھے بھی ساتھ بہا لے جائے گا۔ اگر میں بہہ گیا تو بےبے نے تجھے بھی  عین اسی جگہ لا کر بہا دینا ہےاور اگر بفرضِ محال تو بہہ گیا تو بھی اُس  نے مجھے  بہا  دینا ہے۔"میں نے حسبِ روایت اس کی کہی،اَن کہی کرتے ہوئے اتھری کی وکھی  گدگدای اور اِ س سے پہلے کہ وہ بدکتی ، شتابی سے شڑاپ مار کر  اُس سے نیچے کُود لیا اور کھیڑیاں اتار راجستانی عورتوں کی طرح بازوں پہ ونگوں کی طرح چڑھا لنگوٹ کسنے لگا۔ چوہدری کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کرئے تو کیا کرئے،اتھری واقعی اتھر چکی تھی اور اُس سے سنبھائی نہیں جا رہی تھی۔اس نے گھبراہٹ میں اُس کی باگیں دائیں طرف کھینچ رکھیں تھیں اور خود دائیں طرف جھکا مجھ پہ برس رہا تھا۔اتھری اُس کی چنگاڑ سے اور بھی ہنہناتی اور بدھکتی جا رہی تھی۔
          اِس سے پہلے کہ نہر کا تیز بہاؤ،میرے  اِسے پار کرنے کےارادے میں کوئی شگاف ڈالتا،میں نے کنارے کی طرف بڑھنا شروع کر دیا۔ پیچھے سے چوہدری کی چنگاڑ جو کہ اب تقریباً  ترلے واسطوں میں بدل چکی تھی کےساتھ اتھری کے ہنہنانے کی آواز کسی تعطل کے بغیر میری سماعت پہ بلکل ویسا  ہی اثر ڈال رہی تھی جیسے  مسجد کے ہمسائے پہ موذن کی اذان ۔ میں جوں جوں نہر کی طرف بڑھ رہا تھا،دونوں کی آوازیں نہر کے تیز بہاؤ کے شور میں ڈوبتی جا رہی تھی مگر دھیرئے دھیرئے  اِن دونوں  میں ایک  تیسری آواز بھی ابھرتی چلی گئی جس کی مانوسیت نے میری سمت خود کار طریقے سے اپنی طرف موڑ لی ۔ بگا بھی چوہدری اور اتھری کے ساتھ  دائرے میں اس طرح دوڑ ےجا رہا تھا جیسے کنویں پہ رہٹ گیڑتےہوئے نیچے والا بیل ۔ تھوڑی دیر تو میں  کھڑا یہ منظر دیکھ کر محظوظ ہو تارہا مگر جوں ہی چوہدری کو احساس ہوا کہ بگے کے ساتھ میں بھی وہیں موجود ہوں تو اُس کے حواس بحال ہوئے اور جھٹ سے اتھری کو روک کر نیچے اتر آیا۔ مگر اِس سے پہلے کہ وہ  اتھری کو چھوڑ کر مجھے بھگاتا،میں نے بگے کو ششکاری دلائی اور بھاگتے ہوئے اُس کے پیچھے ہولیا۔
          قسمت والے ہو پتر جو مال ڈنگر سہی سلامت مل گیا ہے،ورنہ جب چھوٹی اور بڑی بھمبرایک ساتھ اِس منافق جہلمی  نہر میں گرتیں  ہیں توچناب بھی گھبرا جاتا ہے۔اب ڈھیرے جا کر جب پہلی بار دودھ دوہنا تو بغداد والے پیر کے نام کی کھیر پکا کر پورے چلوکے میں ضروربانٹنا۔اب دیکھو اِس نِما شام کے ویلےتو تمہیں واپس لوٹتے کالی رات ہو جائے گی اور جھڑی کا بھی کوئی اعتبار نہیں کب لگ جاتی،کب رک جاتی ہے،اِس لیے گھوڑی کی کاٹھی لگام اتارو اور کپڑے بدل کر آج یہیں ٹک رہو اور سویرے لو لگتے ہی اپنا مال ڈنگر لے جانا۔ کیا خیال ہے وائی فیرچھورو؟بابا جی نے حقے کی نے منہ میں دباتےہوئے مشفقانہ لہجے میں کہا اورایک لمبا کش لگا کر کھانسنے لگے۔ باپو جی مجھے تو لازمی جانا ہو گا،ابّا اور چاچا  پریشان ہو رہے ہوں گے،چوہدری یہیں ٹک رہتا ہے اورصبح سویرے میں آ جاؤں گا  ابّے کو لے کر اور وہ چراتے چراتے واپس لے جائیں گے مال ڈنگر،ہم دونوں نے سکول بھی تو جانا ہے ناں سویرے۔"میں نے چوہدری کی طرف مستفسرانہ نگاہ ڈالتے ہوئے بابا جی سے کہا۔"اؤہ پتر ٹھہرتو سہی،کوئی چاۂ پانی تو پیتا جا،بھلا ایسے بھی کوئی کھڑے کھڑے جاتا ہے؟بابا جی  نے حقے کی نڑ اِس کی چلم کے نیچے کی دونڑیوں کے درمیان اڑس کر کہا اور مہمان خانے سے اُٹھ کر زنان خانے میں چلے گئے۔
          دیکھ اوئے کمینے تو سویرے مت آئیں،چاچے کو بھیج دینا اور خود سکول چلے جانا۔ مجھے پتہ تجھے سکول سے زیادہ سائیکل کی فکر کھائے جا رہی ہے۔ بابا جی کے جاتے ہی چوہدری نے چارپائی سے سرہانہ لے کرکہنیوں کے نیچے رکھ کر حقے کی نے منہ میں دباتے ہوئے میرے طرف دیکھ کر کہنی مارتے ہوئے کہا۔ خبیثا  سارے سرہانے کی مت مار دی تو نے گیلا کر کے،میں نے اُس کی کہنیوں سے سرہانہ کھینچتے ہوئے کہا اور اتنے میں بابا جی نے زنان خانے کا دروازہ  وا کیا اور پیچھے کی سمت یوں گویا ہوئے لئیا ادھرپتر،امجھے پکڑا دے ٹرے اور آج کوئی ککڑشکڑ پکائیں،مہمان آئے ہیں "بابا جی نے دروازے کے پیچھے سے نمودار ہونے والے ساوے کانچ کی چوڑیاں میں چھپےلمبے لمبے بازوؤں میں سے نمودار ہونے والے نازک ہاتھوں سے چائے کی طشتری پکڑ کر پاؤں کی ٹھوکر سے دروازے کی کواڑی بند کرتے ہوئے کہا۔ اِس سے آگے کی کہانی اب چوہدری خود سنائے گا،میں نے فقط چائے پی اور اتھری پہ چڑھ گہری شام اور ہلکی رات کے درمیان گھر پہنچا تو چاچا جی ڈیرے  کے داخلی دروازے کے سامنے پہرےداروں کی طرح ٹہلے جا رہے تھے  ۔ انہیں ساری بات بتا کر میں نے غسل کے بعد کھانا کھا کر سونے کی کی، سویرے لو لگنے سے پہلے ٹیوب ویل کے حوض سے سائیکل پکڑی اور سکول چلا گیا۔
         فلک شیر کے جانے کے بعد،بابا جی نے  میرا سرتا پا جائزہ  لیتے ہوئےچائے کے خالی برتن اٹھا ئے اور زنان خانے میں چلے گئے۔ ان کے جانے کے بعد میرے دل میں اچانک حقہ چھوڑ کر سگریٹ سلگانے کی خواہش نےانگڑائی لی۔جس کی تکمیل کے لیے میں نے جیب سے سگریٹ کی ڈبیہ نکالی جو کہ ماچس کی ڈبیہ کے ساتھ بھیگ چکی تھی مگر  سارے کے سارے محفوظ سگریٹ دیکھ کر مجھے ایک اطمینان سا محسوس ہوا اور میں نے ایک سگریٹ نکال کر،چلم میں دہکتے ہوئے انگارے سے اُسے سلگایا اور گہرا کش لگانے کے بعد خود کو انتہائی تھکا ہوا محسوس کیا۔دن بھر بارش میں بھیگنے اور اتھری کی سواری سےمجھے ہلکا ہلکا تپ چڑھنا شروع ہو گیا تھا۔میں نے سگریٹ کا آخری کش لگا کر اُسے چلم میں پھینکا اور اُس سے اُٹھنے والے بدبودار دھویں کی وجہ سے خود کو کوسنے لگا۔اتنے میں بابا جی ایک ہاتھ میں کُرتا پاجامہ اوردوسرے ہاتھ میں ایک عدد صابن تولیہ لیے پھر نمودار ہوئے اور مجھے غسل خانے کا راستہ بتاتے ہوئے تھما کر  وہیں بیٹھ رہے۔ غسل خانہ کافی کشادہ تھا اور اوپر سے ڈھکا ہوا بھی تھا مگر  مجھے ہلکے ہلکے چڑھتے ہوئے تپ نے غسل کے بجائے "لہوری نہانے" پہ مجبور کرنے کی کوشش کی ۔جوں ہی میں نے  مگ کو پانی کے ٹپ  میں ڈالا تو  ہلکے نیم گرم پانی کو  محسوس کر کے سوائے اُسے اپنے اوپر اُنڈیلے کے کوئی چارہ نہیں رہا تھا۔
       کھانا کھانے کہ بعد جو کہ انتہائی لذیذ تھا،بابا جی نے اِدھر اُدھر کی ہانکنا شروع کر دیں اور میں اُن کی ہاں میں ہاں ملاتا رہا یہاں تک کہ میری بگڑتی ہوئی حالت دیکھتے ہوئے بابا جی نے مجھ پہ ترس کھایا اورزنان خانے میں آواز دے کر بستر لگانے کی ہدایت کی  جس کے جواب میں فوراً سوال کیا گیا کہ کہاں لگا ئے جائیں بستر؟"پُتر،یہیں مہمان خانے میں،چھور کو تپ چڑھ رہا ہے اس لیے اور میرے لیے باہر برآمدے میں ،یہاں تو اچھا خاصا حبس ہو رہا ہے۔بابا جی کہتے ہوئےاٹھےاور مہمان خانے کے خارجی دروازے سے باہر  چلے گئے تو میں نے بھی اُن کے ساتھ ہی باہر جانا مناسب سمجھا،حالنکہ مجھ سے اُٹھا نہیں جا رہا تھا۔بگا مجھے دیکھتے ہی دوڑتا ہوا آیا اور پاؤں میں لوٹ پوٹ ہونے لگا۔میں نےاس کا سر کھجانے کےلیے  جھکنا چاہا تو وہیں گر کر بے ہوش ہو گیا۔
      جب میری آنکھ کھلی تو  خود کو بستر پہ پایا۔فضا میں کانچ کی چوڑیوں کی کھنک یوں آ رہی تھی جیسے بہت سارے موروں کے پاؤں میں جھانجھریں ڈال کر نچایا جا رہا ہو۔کوئی میرے پاؤں کے تلوئے  رگڑ رہا تھا اور بابا جی  میرے منہ پہ پانی کے چھینٹے مار  رہے تھے۔میرے سارے بدن پہ کپکپی طاری تھی اور  پہلو تک بدلنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔بابا جی نے میری آنکھیں کھلی دیکھیں تو ربّ کا شکر ادا کرتے ہوئے میری خیریت معلوم کرنے لگے۔ جس کا جواب میں صرف آنکھیں موند کرہی دے پایا۔مجھے سخت پیاس  لگی رہی تھی ۔میں نے پانی مانگنے کے لیے آواز نکالنا چاہی تو پہلی کوشش میں صرف منہ ہی کھلا ،مگر دوسری بار ہمت  کر کے میں نے لفظ "پانی "کو  رندھی ہوئی آواز میں ادا کر ہی دیا۔اِک دم سے ناچتے ہوئے مور جیسے آہستہ آہستہ کسی نامعلوم سمت چلے گئےاور تھوڑی دیر بعد جب مجھے پھر وہی کھنک سنائی دی تو میرے منہ کے ساتھ مٹی کا پیالہ لگا ہوا تھا ،جسے میں غٹ غٹ آب حیات سمجھ کر پئی گیا اور پھر وہیں ڈھیر ہو گیا ۔بابا جی کسی کو کہہ رہے تھے کہ اِس کے ماتھے پہ پٹیاں رکھنی پڑیں گئیں،ورنہ یہ صبح تک دم دے جائے گا۔
      جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے،فلک شیر کا یہ معمول رہا ہے کہ وہ  فجر کی نماز واسطے آ کر مجھے جگا کر اپنے ساتھ  مسجد لے جایا کرتا تھا اور اِس کے پہلے ہی آوازے پہ میرا جی چاہتا تھا کہ اُس کا گلہ ہی گھونٹ دوں۔حسب معمول  مجھے فلک شیر کی آواز سنائی دی اور میں خلافِ توقع ہڑ بڑا کر اُٹھ بیٹھا۔مگر فلک شیر کا آس پاس کہیں نام و نشان تک نہیں تھا۔ہاں البتہ باہر سے اتھری کے ہنہنانے کی آواز ضرور آ رہی تھی۔نیند سے بیدار ہونے کے بعد میرا ہاتھ ہمیشہ چارپائی کے ساتھ پڑے  ٹیبل کی طرف بڑھتا ہے جہاں سے گھڑی اور تعویز اٹھا کر میں  بلترتیب ہاتھ اور گلے میں پہن لیتا ہوں۔مگر  اُس صبح میرے ہاتھ صرف تعویز ہی آیا،گھڑی غائب تھی۔میں نے اٹھ کر گھڑی کو اِدھر اُدھر ڈھونڈنا چاہا تو کمزوری کی وجہ سے پھر بستر پہ گر گیا۔رات بھر کیا ہوا ،مجھے کچھ یاد نہیں تھا۔میں نے تعویز کو گلے میں ڈالنے کے لیے  سر کو ذرا سا جھکایا تو  گریبان کے سارے بٹن ٹوٹے ہوئے تھے۔میں چلانگ مار کر بستر سے اُٹھا تو فرش پہ بکھرے ہوئے ساوے کانچ کا ٹکڑا پاؤں میں گھس کر اِسے  لہو لوہان کر گیا۔تکلیف کی وجہ سے میں وہیں زمین پر بیٹھ کر اُسے نکالے لگا تو اچانک میری نظر ٹوٹی ہوئی گھڑی پہ پڑی جو کے چارپائی کے پائےدان کے ساتھ لپٹی پڑی تھی اور اُس کے ساتھ ہی ایک جگ گلاس پڑا تھا۔جسے دیکھ کر مجھے شدید پیاس محسوس ہوئی۔میں نے  گلاس کی بجائے جگ کو اُٹھایا اور اُس سے منہ لگا کر پانی پینا چاہا  تو وہ مجھے کوئی اور ہی شے محسوس ہوئی،جو کہ پانی ہرگز نہیں تھا۔میں نے جگ کو واپس وہیں رکھا اور گھڑی اٹھا کر وقت دیکھا تو آٹھ بج رہے تھے۔میں ہڑبڑا کر مہمان خانے کے خارجی دروازے سے باہر نکلا اور اتھری کی لگام تھامے بوجھل قدموں سے پگڈنڈی پہ چل پڑا جو مجھے عین اُسی مقام پہ لے گئی جہاں  ندی آ کر نہر میں گرتی تھی۔
      ندی کا پانی نتر کر چشمے کا سالطیف ہوچکا تھا اور مجھے اپنا وجود ایسا کثیف لگا جیسے کل طغیانی میں یہی پانی گہرا گندھلا تھا۔میں نے اتھری کو وہیں کنارے پہ چھوڑا اور ندی میں اترتا چلا گیا۔یہاں تک کہ پانی میرے لبوں کو وا کر کے میری  پیاس کو بجھاتا چلا گیا۔ٹھنڈےپانی کو میں نے دیر تک اپنے جسم پر سے گزرنے دیا جوکہ بخار کے اتر جانے کے بعد کافی کمزور پڑ چکا تھا،مجھے  یوں محسوس ہو رہا تھا جیسےپانی میرے جسم میں سے چھن کر گزر رہا ہواور ساری کثافتیں اپنے ساتھ بہا لیے جا رہا ہو۔ جب میں نے پورے جسم پہ کپکپاہٹ محسوس کی تو دھیرے دھیرے واپس عین اُسی مقام پہ آ نکلا جہاں پہ ندی آ کر نہر میں گرتی تھی۔۔وہاں پہ ایک بھنور بن چلی تھی ،جس کے شور میں سےمجھے بابا جی کی آواز مسلسل گونجتی سنائی دے رہی تھی کہ پتر،جب یہ بھمبر،اِس منافق جہلمی دریا میں گرتی ہے تو چناب بھی ایک دفعہ گھبرا جاتا ہے۔اتنے میں  ندی کے صاف و شفاف پانی میں کنول کا ایک پھول تیرتا ہوا آیا اور بھنور میں گرتے ہی کہیں  گم ہو کر رہ گیا اورمیں دیر تک وہاں بیٹھےاُس کے ابھرنے کا انتظار کرتا رہا۔

Wednesday, June 20, 2012

برکت علی عرف باقی


      "چوہدرى جى گل تے سنو،فير مار وى لينا“اس كے چوہدرى کہنےكى دير تھى،كہ يك دم ميرى گردن كا خم دور ہو گيا اورچھاتى يوں پھول گئ جيسےكوئى خبطى گوريلہ مجھےفوج ميں بھرتى كرنےكےواسطے فيتہ لے كر اسے ناپنے والا ہو، اس لفظ "چوہدرى"كے بارے ميں سيانے كہتے پائے گئے ہيں كہ اگر بوقتِ توليد كسى بھی زى رو كو "چوہدرى”"كہہ كر پكارا جائے تو وه وہيں اكڑ رہتا ہے اور زچہ كى موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔
       اوۓ تجھے ميرا ہى كھيسہ ملا تھا ہاتھ صاف كرنے کیلیئے،كوئى كام وام نى كرتا تو اوۓ۔ كہاں چوہدرى جى، نہ كام ہے،نہ گھر،دوسرے دن سے بھوكا ہوں جی!چل كسی ہوٹل ميں چل تجھے كھانا كهلاؤں- نى جى آپ پيسے ديں،ميں خود ہی كھا لوں گا۔ تجھے تھانے ناں دوں؟چل اگے لگ،يہاں سے دو فرلانگ پہ ہوٹل ہے.ميں نے اسے پيسے بظاہر اس ليے نہيں دیئے تھے كہ يہ كوئى دوكھےباز بھى ہو سكتا ہےمگر شايد لاشعور ميں بار بار"چوہدرى" سننے كى حسرتيں لُوٹ پُوٹ ہو رہيں تھیں۔
         چٹا گورا رنگ،كوٹھے جتنا قد،موٹى موٹى آنكھيں،جن ميں لال ڈورے اس كى راتوں كا سراغ ديتے تھے،ہنستا تو رخساروں ميں گہرے گڑے پڑ جاتے،بلكل “خوابوں والى” كى طرح.جب وه كھانا كھا رہا تھا تو ميں نےاسی وقت فيصلہ كر ليا تھا كہ يہ اب ميرے ساتھ ہى رہے گا۔ پرديس ميں ايسا ہيرا رلنا نہيں چاہيے اسی لیے جب اس نے كھانا كھانے كے بعد،ٹھونسنے كى كوشش كى تو ميں نے اسےاٹھنے كو كہا اور بہرے كو بل لانے كے ليے آواز دى جو شايد اسى انتظار ميں كہيں پاس ہى كھڑا تھا.بہرے نے بل مجھے تھمانا چاہا تو اس نے جھٹ سے اچك ليا۔ چوہدرى جى بل ميں دوں گا اور دوسرے ہى لمحے اس نے اپنى جيب سے ميرا پرس نكالا اور مسكراتے ہوئے بل ادا كرنے كے بعد پرس مجھے لوٹا ديا.ميں نے ہوٹل سے باہر نكلتے ہوئے اس سے نام پوچھا تو جھٹ سے بولا،بركت على موچى۔ يہ موچى بتانا لازم تھا اوۓ،لےآج سےتيرانام "باقى”"ہے،يونان ميں يہى روايت ہے كہ كوئى چھوٹا سا نام ركھ ليتے ہيں جو يونانيوں كو ياد بھى رہے اور پكارنے ميں آسانى بھى ہو،اگر كوئى نہ بھى ركھے تو يہ اپنى مرضى سے كوئى نام ركھ ديتے ہيں جو اكثر مہنگا ہی پڑتا ہے.لے واى باقى، يہ ہے اپنا گھوڑا،ميں نے اسے موٹر سائيكل كى طرف اشارا كرتے ہوئے كہا۔ ملوم اے چوہدرى جى،جب آپ اس سے اتر كر اس دكان كى طرف جا رہے تھے تو ميں يہيں سے آپ كے پيچھے ہوليا تھا۔ مطلب تو نے پورا منصوبہ بنايا تھا،تو عادى جيب كترا ہے اوئے؟نى جى،مجھے پتہ تھا كہ آپ مجھے مارنے كے بعد ميرى مدد ضرور كريں گے،اگر كسى اور كى پاكٹ مارتا تو اس نے پُلس كے حوالے كر دينا تھا۔ چل بيٹھ ۔ميں نے موٹر سائيكل اسٹارٹ كرتے ہوے اسے كہا.
         تھوڑى دير بعد ہم اپنے ڈيرے پر تھے،ابھى تك كوئى بھى كام سےلوٹ كر نہيں آيا تھا۔ميں نے اسے توليہ ديا اور غسل خانے كا راستہ بتاتے ہوئےكپڑوں كى المارى كھول كر دكھائى كہ جو پورے آتے پہن لينا اور ايك عدد خود كار استرا تھمايا تاكہ شيو بھى بنا لےاور خود كام پہ جانے كى تيارى ميں جھٹ گيا،اتنے ميں شيرا بھی اپنے مخصوص انداز ميں سلام كرتا ہوا آ دھمكا،شيرے كے سلام كا جواب ہاتھ كے مخصوص انداز ميں گھمانے كے سوا ميں آج تك نہيں ڈھونڈ پايا.غسل خانے سے نل كے كھلنے كى آواز سنتے ہى شيرے نے پنجابى كى سب سے ہلكى گالى كا "ی"اڑايااوراس سےپہلےكہ وه غسل خانے ميں بركت على كے گرنے كى آواز پہ اور جھاگ اڑاتا،ميں اس پہ اپنا چڑھا ہوا پاره انڈيل چكا تھا اور وه بےشرموں كى طرح وضاحتيں كرتا ره گيا كہ پہلے بتانا چاہے تھا ناں وغيره وغيره۔ مجھے كام سے دير ہو رہى ہے،بركت على ميرا مہمان ہے اور چند دنوں تك يہيں رہے گا،ميرے واپس آنے تك اس كى خدمت يوں كرؤ جيسے يہ خوابوں والى كا رشتے دار ہواور باقى مشٹنڈوں كو بھى سمجھا دينا۔ شيرے كو ضرورى ہدايات دينے كے بعد ميں كام پر چلا گيا۔.
          آٹھ پہروں ميں چار پہروں كى مزدورى جو ہر ہفتے بعد بدل جاتى ہے،بندے كى سٹى گهما ديتى ہے.نيند كا كوئى نظم و ضبط باقى نہيں رہتا،ليكن آج مجھے كام پر نيند كے جھونكے بلكل نہيں آ رہے تھےاور نہ ہى كافى كى ضرورت محسوس ہوئى.حالنكہ ايلينى دو تین بار فون كر چكى تھى كہ كافى بھيجوں مگر ميں نے انكار كر ديا۔ كمپيوٹر كى سكرين پہ آٹوكاڈ كے ہر نمونے كى "فریم وائير"ميں سے "خوابوں والى"كےگہرے گڑوں والى شبیہ كے علاوه كوئى اور شے بھى مجھے تنگ كر رہى تھى.كھانے كے وقفے ميں ابھى چند گھڑياں باقى تھيں كہ ميں نے"Ἐλευθέριος  Βενιζέλος" كا بت كھودتى مشين كا سرخ بٹن دبايا اوراپنے ارد گرد لگے كيمروں كے پيچھے سے جھانكتے ہوئے بڈھے سنكئ كى تلملاہٹ كا اندازه لگاتا ہوا سيدھا كيفيٹيريا ميں جا گھسا۔ وقت سے پہلے ميرى غير متوقع آمد پہ ايلينى كى خوشگوار حيرت كو نظر انداز كرتے ہوئے ميں نے يہ پوچھا كہ اس نے آج مجھے كتنى بار كافى كى پيش كش كى ہے،تو وه بولى تين بار- تو ميرى جان ايك كپ ميں تين چمچۓ كافى كے اور ايك چمچ شكر ڈال كر جلدى سے كافى كا ايك گرما گرم كپ رگڑواور ہاں دودھ بلكل نہ ڈالنا-چند لمحوں بعد ايلينى نے كافى كا گرم كپ مجھے تھمايا تو اس كا چہره بھى مجھے روٹھى ہوئى "خوابوں والى"كاسا لگا۔ ميں نے اُسے خوش كرنے كيلئے ايك ہوائى بوسۂ پهينكا اور كهڑكى كے پاس پڑے اسٹول پہ جا كر بيٹھ گيا جس كے باہر چاند ابهى ابهى كسى بادل كى لپيٹ ميں آگیا تها،بغير روئى كى گولى كے دو كاغذوں پہ مشتمل بيڑى لپيٹى جو كہ اپنى جسامت كے لحاظ سے کسی بھی سگار سے كسى طور كم نہ تھى،كافى كا گھونٹ لينے كے بعد بيڑى كا گہره كش لگا كر چاند كےبادل ميں سے جھانكنے كا انتظار كرنے لگا تاكہ دو چار چھلے اس پر وار سكوں كہ اتنے ميں فون كى گھنٹى نے مجھے چونكا ديا۔ شيرے كى گھبرائی ہوئى آواز سے يہ برآمد یوا كہ بابا خان ،بركت على كا انٹرويو كرنا چاہتا ہے۔ بلكل بھى نہيں،كسى صورت نہيں یو سكتا،بركت على كو بابے خان كے سامنے كسى صورت نہ جانے دينا،سنا تو نے! شيرے نے ميرى چنگاڑتی ہوئى آواز كى وجہ پوچھے بغير مجھے يقين دلايا كہ ايسا ہى ہو گا۔ فون بند ہونے كے ساتھ ہى ميں نے كافى كا گھونٹ ليا تو وه نہايت كڑوى محسوس ہوئى اور يہى حال سگارنما بيڑى كا بھى تھا.كافى كا كپ ميں نے گند كے ڈبے ميں پھينكاجوكہ ايلينى كے پاس ہى پڑا تھا،اُس كے گال تھپتپاتےہوئے تقريباً بھاگتا ہوا مشين كے پاس چلا گيا،جس پہ پڑے آنجہانى "Ἐλευθέριος Βενιζέλος" ميرا انتظار كر رہے تھے۔ مشين كو بت تراشى كے مشركانہ فعل پہ لگا كر ميں كمپيوٹر كى سكرين پہ آٹوكاڈ كى دنيا ميں الجھ کر رہ گيا يہاں تك كہ صبح ہو گئ،ہفتے كا آخرى دن ہونے كے ناطے مشين بند كرنا پڑى اور سيدھا ڈھيرے پہ آ گيا۔
       صبح كا سورج نيزے برابر افق پہ ابھر چكا تھا مگر اپريل كى صبح خاصى خنك ركھتى ہے،ہركھيس ميں سے خراٹوں كى آواز آ رہى تھى .پورے مكان ميں مينڈكوں اور گدھوں كا مقابلہ "خروٹر" زوروں پہ تھا.دو دنوں كى تھكاوٹ بمعہ جگراتا كے زہر كا ترياق، گرم پانى سے ايك عدد غسل اور فون پہ ماں جى كى گرام بيل كو ڈھيروں دعاؤں (جو كہ كبھى ختم ہونے كا نام ہى نہیں ليتيں) سے ہى ممكن تھا مگر غسل كے بعد نيند پہ تازگى كے ڈاكے سے چوكنا"خوابوں والى" مجھے سيدھا بستر پہ لے گئ اور تھوڑى دير بعد ميں بھى مقابلہ "خروٹر" كا حصّہ تھا۔
         خوابوں كے كھيت ميں ان دنوں گندم كى فصل تيار كھڑى تھى اور وه پگڈنڈى پہ درانتى لئےميرا انتظار كر رہى تھى-ابھى ميں نے تھكاوٹ كى ور چارپراتيں ہی بچھاڑى ہوں گى كہ مجھے اپنے اردگرد تمباكو اور گڑ كے ايك ساتھ جلنے كى خوشبو نے مسحور كر كے ركھ ديا-اسى لمحے ساتھ والے كھيت ميں  ٹٹيرى نے آسمان سر پہ اٹھا رکھا تھا اور ٹی  ٹی ٹيں  كيے جارہى تھى- میری آنکھ کھلی توبركت على مجھے زور زور سے جنجھوڑ رہا تھا۔ سارا مكان دھويں سے بھرا ہوا تھا اور فائرالارم زور زور سے بج رہا تھا-اس سے پہلے كہ كوئى فائيربرگيڈ والوں كو فون كرتا،ميں نے مكان كے تمام دروازے كھڑكياں كھوليں اور ہمسائیوں كو سارى صورتحال سے آگاه كياجونكريں،بنیانيں پہنے اپنى خوابگاہوں سے سيدھا ميرے مكان كے گرد جمع ہونےہی والے تھے- بركت على بچاره چلم ہاتھ ميں ليے سہما كھڑا تھا۔ وه جى ميں فلك شير كے ساتھ اشٹور ميں گيا تو وہاں مجھے پڑا مل گيا،ميں نے سوچا چوہدرى صاب جب اٹھيں گے تو خوش ہو جائيں گے تازه دم حقہ ديكھ كر-اور يہ مشوره تجھے شيرے نے ديا ہو گا؟نى جى اس بچارے نے تو مجھے گڑ اور تمباكو نكال كر ديا اور خود باؤ بن كر دوسرے لڑكوں كے ساتھ كہيں چلا گيا ہے- دراصل چلم بھرنے کے واسطے برکت علی نے چمنى کا انتخاب کیا تھاجو اوپر سے بند تھى اور اس کے اندر لگا ہوا خودکار پنکھا اس کے اوپری حصے میں دھواں جما کرتا رہا اور آخرکار جب بےبس ہو کر رہ گیا  توجمع شدہ دھواں یک دم پورے مکان میں لگے الارموں کو ان کےچیخنے چنگاڑنے کے  فرائضِ منصبی کی ادائیگی پہ مجبور کر گیا۔
              لے وائى بركتا ميں ایك تارى لگا لوں پھر حقہ گرم کرتے ہيں مل كر- ميں  نے المارى سے تويرے كا سفيد كرتا نكالا اور اسے استرى كرنے لگا جو ماں جى نے اپنے ہاتھوں سے سلائی  كر کے بھيجا تھا اور جس كے پہننے كى نوبت صرف عيد كے عيد ہى آتى تھى، تو بركت على نے استرى ميرے ہاتھ سے چھين كر کہا كہ چوہدرى جى تسى تارى لاؤ تے ميں استرى كرتا ہوں،اور فكر ناں كريں جلاؤں گا بلكل نى جى۔ لے ميرى بے بے سے بات بھى تو ہى كر لےميں نے فون اٹھا كر ماں جى كا نمبر ملاتے ہوئے اسےجنجھلا كر كہا تو اس كى آنكھيں بھر آئيں-ميں سمجھ گيا كہ میں نے  انجانے میں بركت على كى دکھتی رگ پہ ہاتھ رکھ دیا ہے- ماں جى كا حال پوچھنے كے بعد ان كى روائیتی دعاؤں كا سسلسلہ شروع ہوتے ہى ميں نے فون بركت على كو پكڑايا اور خود نہانے چلا گيا-مجھے معلوم ہے كہ تو چائے بھى بہت اچھى بناتا ہوگا مگر خبردار جو كچن ميں آيا تو،ميں نے پتيلى چُولے پہ چڑهاتے ہوئے بركت على سے كہا جو قميض ہاتھ ميں ليے سيدھا كچن ميں ہى گھسا چلا آ رہا تھا-
      تھوڑى دير بعد ہم دونوں چائے كى سرکيوں كے ساتھ حقے كى گڑگڑ كى لے تال ملا رہے تھے- بات كى پھر ماں جى سے؟ميں نے حقے كى نے اسے پكڑاتے ہوئے پوچھا- بس جى كسى گامے بيلے كو دعائيں ديتیں رہیں،اور جب ميں نے انہيں بتايا كہ ميں گامہ بيلا نى ہوں بلکہ بركتا موچى ہوں تو انہوں نے آپ كو پتا كيا كہہ كر فون بند كر ديا؟كيا كہا اوئے؟ميں نےاپنی ہنسی پہ قابو کرتےہوئے اُس سے حقے کی نے ليتے ہوئے پوچھا-چوہدرى جى ماؤں كو ستايا نہيں كرتے،ويلہ ہتھ نى آتا-ربّ کا دوجا روپ ہوتی ہے ماں زمین تے۔ جدی ماں رس جاتی ہے اس کا سمجھو ربّ  رٹھ گیا۔ ویسے یہ گاما بیلہ کون نیک بخت ہے جی؟میرا روحانی رقیب ہے یار،میرے ساتھ حصّہ دار ہے دعاؤں کا۔ یہ فون اسی نے ایجاد کیا تھا برکتا۔ برکت علی کی ہنسئ چھوٹ گئ اور میں اس کے گہرے گڑھوں کے توسط پھر خوابوں خیالوں کی دنیا میں بھٹک کر رہ گیا۔
 حقہ کیسا لگا آپ کو؟برکت علی نے حقے کی نےمجھ سے تقریباً  چھینتے ہوۓ پوچھا
ودیا ہے وای برکتا،کہاں سے سیکھا تو نے حقہ ڈالنا؟
ابّے سے جی،چوہدری اللہ رکّھے کو ابّے کے علاوہ کسی اور کے ہاتھ کا حقہ پسند نی آتا تھا جی
اؤے تو  چاچےشریفے کا پتر ہے اؤے؟میں نے چونک کر پہلو بدلتے ہوئےکہا۔
آپ کیسے جانتے ابّے کو جی؟برکت علی نے بھی حیرت سے پوچھا۔
بابے اللہ رکّھے کا گاٹا میرے چاچےنے ہی تو اتارا تھا!
وہ تو ابا کہتا تھا کہ پاغل ہو کے مرا تھا!
     اسی سٹ کی وجہ سے ہی توپاگل ہوا تھا وہ،پر تیرا ابّا بڑا چنگا بندہ تھا یار،چاچے کی ایک آواز پہ دوڑا چلا آتا تھا۔کبھی بات ہوئی تو میرا سلام کہناچاچے کو۔اب  ابّا سننے جوگا نی رہا جی،چار سال ہوئے اسے گزرے ہوئے۔برکت علی کی آنکھوں میں آنسوؤں کا سیلاب امڈا ہی چاہتا تھا کہ میں نے ہاتھ اٹھا کر فاتحہ پڑی اور اسے دلاسا دیا ۔اتنے میں دروازے پہ زور کی دستک ہوئی تو میں سمجھ گیا کہ بابے خان کے سوا  اور کون ہو سکتا ہے جو انگلی سے گھنٹی دبانےکی بجائے اپنا  پورا ہاتھ  اور میرا دروازہ توڑنے پہ تلا ہوا ہے۔ خاں جی ادھر بیٹھیں،اس صوفے پہ، آپ کیلیئے سپیشل لے کر آیا ہوں،منجی کا سا سواد دیتا ہے۔ایوے پیسے ای روڑ آیا اے پترا،ایدی کی لوڑ سی بھلا،اور سنائیں آپ باؤ جی،میں تو کل ہی آپ سے ملنے آیا تھا مگر شیرے نے مجھے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ چوہدری کا حکم ہے کہ مہمان کو نیند سے کوئی نہ جگائے۔ بابے خان نے برکت علی سے مخاطب ہو کر کہا۔ برکت علی بچارہ بجائے جواب دینے کے میری طرف سوالیہ نظروں سےدیکھ رہا  تھا۔ میں نے بےاعتنائی سے نظریں پھیر باورچی خانے میں چلا گیا تو اس نے کل  وقوع پذیر ہونے والے سارے واقعات من و عن بیان کر دئیے۔ میرے لسی بنا کر لانے تک برکت علی اور بابا خان ،چاچے شریفے کی فاتحہ پڑھ چکے تھے۔ لسّی پینے کے بعد خان جی نے حقے کی نے تھامی اور گہرے کش لگانے لگے، جیسے جناح صاحب کے بارے میں  مبینہ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے اپنی بیٹی کو عاق کرنے کے بعد اس رات  بیسیوں سگار پھونکے تھے۔ خلاف توقع بابے خان نے حقے کی نے برکت علی کو پکڑائی اور مجھے توقع کے عین مطابق باہر  طلب کر لیا۔
    
    

Sunday, June 3, 2012

بھرپور مسیحا

      آپ کو جلدی پہنچنا ہو گا۔دواخانہ بند ہونے میں صرف بیس منٹ رہ گۓ ہیں،یہ ليجئيےنسخہ اور یہ رہا دواخانے کا پتہ۔اس نے فون بند کرتے ہی نوٹ پیڈ میں سے ورقع پھاڑتے ہوۓ کہا۔چونکہ آج ہفتہ ہے اس لیے پورے قصبے میں یہ واحد دواخانہ ہے جو کھلا ہے ورنہ آپ کو بہت دور جانا پڑے گا۔دیکھۓ زخم گہرا ہے،لاپروائی مت  گا،ٹیٹنس کا انجیکشن چوبیس گھنٹے کے اندر ضروری ہے،اس نے ساتھ تنبیہ بھی کرڈالی۔
      ہم نے ٹیکسی پکڑی اور پانچ منٹ میں دواخانہ ہمارے سامنے تھامگر داخلی دروازے پہ بند ہےکی تختی ہمارا منہ چڑا رہی تھی حالانکۂ اندر لوگ موجود تھے۔ہمارے دستک دینے پہ کاونٹر پر موجودبابا جی نے ہمیں دیکھنے کے لیے سر کو جکایا تو ان کے دبیز شیشوں والے چشمے خودکار طریقے سے نیچے سرک گۓ اور دوسرے ہی لمحے ان کا منہ جتنا اوپر کی طرف اٹھ سکتا تھا،اٹھا اور ساتھ ہی چشمے اپنی اصل جگہ بیٹھ گۓ جیسے کبھی یہاں سے ہلے ہی نہ ہوں۔بابا جی کی اس حرکت کا یونانی تہذیب میں سیدھا سیدھا مطلب تھا،”چل دوڑ،جوابا ای”
      ہم نے بائیں ہاتھ کی درمیان والی انگلی بابا جی کو یوں دیکھائی کہ اگر اس پر پٹی نہ ہوتی تو ہماری اچھی خاصی پٹائی ہو سکتی تھی۔انہوں نے غصے کے ساتھ لمبی آہ بھری ،دروازے کو اندر سے کھولا اورہمارا استقبال یوں کیا جیسے کسی ويران سراۓ میں ہوٹل کا مالك كسى بھٹکے ہوۓ مسافر كا کرتا ہے۔آئیے جناب،آپ ہی کا انتظار ہو رہا تھا۔بابا جی نےکسی ماریانہ نام کی شے کو آواز دے کر ہماری سیوا کے لیے حکم عنایت فرمایا اور اندر موجود گاہک کو دوا کے متعلق ہدایات بتانے لگے۔اتنے میں بغلی دروازے سے جو لڑکی نما عورت ہمیں اپنی طرف متوجہ نظر آئی،ہمیں اس کےنام پر بےحد حیرانی ہوئی،کیوں کہ “ماریانہ”نام کی جتنی بھی اجناس سے ہمارا واسطہ آج تک پڑ چکا تھا،وہ تمام صنفِ نازک کی اصطلاح پہ کسی دھبے سے کم نہیں تھیں۔
     زین کی بنی(φούστα)جو کہ گھٹنوں سے ذرا نیچے تک اور اگے پیچھے سےبلترتیب چار اور پانچ انچ کے برابر چاک زدہ بھی ہوتی ہے، جسےآپ دیسی زبان میں یونانی دھوتی بھی کہہ سکتے ہیں، میں ملبوس ماریانہ اگر ایڑی والے پہناوے اتار بھی دیتی توہمارے چھ فٹےقد کے برابر پہنچتی تھی۔صحیح النسل یونانی عورتیں عموماً اتنی درازقد نہیں ہوتیں مگر ماریانہ کے چہرے کے خدوخال اور سبز آنکھیں اس کے والدین کے قدیم یونانی ہونے کی گواہی دے رہیں تھیں۔سرخی پاوٴڈر اور بالی بوندیوں سے بےنیاز ماریانہ کے ناک میں ہلکاباریک سا کوکا جو عموماً یورپی عورتیں اپنی توہین سمجھتیں ہیں،اس کے تلوار جیسے پتلے اور ہلکے سے ٹیڑے ناک کا باقاعدہ حصۂ معلوم ہوتا تھا۔نسخۂ دیکھائیے،ڈاکٹر صاحب نے کونسا انجیکشن تجویز کیا ہے آپ کے لیے؟ہم نےفٹ سے نسخہ ماریانہ کو پکڑا دیا۔اس کے خوبصورت ہاتھوں کی لمبی لمبی انگلیوں کی پوروں جن پہ بغیر پالش کے ناخنوں کے نیچے سے لہو جھانک رہا تھا،کی گرفت میں موجود اس کاغذ کے بےجان ٹکڑے پہ ہمیں بےاختیار رشک آگیا۔
      یہ انجکشن تو ہمارے پاس نہیں ہے،نسخۂ تبدیل کروانا پڑۓ گا۔اگر آپ چاہیں تو۔ہماری تمام تر توجعہ  اس کےتازہ کھلے ہوے گلاب کی پنکھڑیوں جیسے ہونٹوں پہ مرکوز تھی جن کے ہلنے سے اس کے رخساروں پہ دلکش لکیریں نمودار ہوتی تھیں اورفضا میں دلفریب ترنم پیدا ہوجاتا تھا-ہمارے چاہنے نہ چاہنے سے کیا ہوتا ہے،اور کوئی بھی جراثیم کش انجکشن لگا دیجۓ،نسخۂ تبدیل کروانے کے لیے دوبارہ ڈاکٹر صاحب کے پاس جانا پڑے گا اور واپسی تک بابا جی ہمارا انتظار کیونکر کریں گے بھلا،وہ تو تھوڑی دیر پہلے تک ہمیں اندر ہی نہیں گھسنے دے رہے تھے۔ہم نے ایک ہی سانس میں اپنی حکیمانہ راۓاور بابا جی کے رویے جو کہ بلکل جائز تھا کا اظہارایک ہی سانس میں کر دیا تو وہ بڑی حیران ہوئی۔آپ اتنی اچھے لہجے میں یونانی کیسے بول لیتے ہیں۔اس سے پہلے کہ ہم اپنا “روب” جمانے کے لیے کچھ اورکہتے،بابا جی کی آواز آئی۔”ماریانہ بیٹا، اس لنگُور کو جلدی فارغ کرو دیر ہو چلی ہے”
       باباجی کےان ارشادات نے ہمارے جبلی تقاضوں کے عین مطابق ہمارےقلب و ذہن پہ وہی اثرات چوڑےجواس گدھے کےہنہنانۓسے ہمارے اس سحر کے خواب کے ٹوٹنے پر پیدا ہوۓ تھےجس میں ہم جنت کے باغات میں اپنی حورین کے ساتھ محو گفتگو تھے اور ہم نے جبلی تقاضوں کے عین مطابق اس کے جاہ وقوعہ کی تلاش کر کےاس میں اور اپنے میں تمام ترفرق کو بلاۓ طاق رکھ چوڑا تھا ۔ باباجی کاش آپ گدھے ہی ہوتے
        آپ چلیں،مجھے تھوڑی دیر ہو جاۓ گی،آپ کے اس “لنگور” کو اب بےیارومددگار بھی تونہیں ناچھوڑا جا سکتا۔یونانی لوگوں نے غیر ملکیوں سے اتنا گلنا ملنا کب سے شروع کر دیا ہے؟ہم نےحساب پورا کرنے کے لیےہکا سا طنز کر ڈالا، ہمارے والد بزرگوار جو ابھی آپ کی “تعریف” کر رہے تھے جوانی میں بڑے مہم جو قسم کے واقع ہوئے تھے،آپ کے ملک میں آباد کیلاش قبیلے کی ایک حسینہ پہ مر مٹے اور بیاہ کے یہاں لے آۓ،انہیں کے بطن سے ہمارہ جنم ہوا ہے،اب جنیاتی جراثیم مرتے مرتے وقت تو لیتے ہیں نا۔یہ بات ہمارے لیے کسی جھٹکے سے کم نہ تھی۔پھر تو آپ ہماری زبان جانتی ہوں گئ۔بلکل بھی نہیں،بابا نے ہمیں ماما کے قباہلی اثرات سے بچانے کے لیے ہمیں بورڈنگ اسکول میں ڈال دیا تھا اور ویسے بھی کیلاش قبیلے نے اپنی رسم ورواج کے علاوہ اپنی زبان کو بھی کسی حد تک محفوظ رکھا ہے۔
        اس نے نسخۓ پہ لکھے ہوۓ نمبر پہ فون کیا اور ڈاکٹر صاحب کواصل صورت حال سے آگاہ کیا،ڈاکٹر صاحب نے نیا نسخۂ تجویز کر دیا اور اس سے فیکس نمبر پوچھا تاکہ وہ  نسخےکو فیکس کر سکیں اور ہمیں لگنے والے انجکشن کو باقاعدہ قانونی حیثیت حاصل ہو سکے-اس نے فون بند کر کے ہمیں ساری گفتگو کا خلاصہ بیان کیا کہ ڈاکٹر صاحب اور اس کے درمیان کیا گفتگو ہوئی ہےجو کہ ہم پہلے ہی سن چکے تھے ۔نئی بات صرف یہ تھی کہ ڈاکٹر صاحب کی مددگار اسسٹنٹ کہیں غائب ہے اور آتے ہی فیکس کر دے گی۔اس سے بڑی خوش خبری ہمارے لیے بھلا کیا ہو سکتی تھی۔اس نے ہفتے بھر کی تھکن کو ذرا سا دلاسا دینے کیلیۓ ایک بھر پور انگڑائی لی تو ہم نے دنیا بھر کے تمام رنگین مزاج شاعروں کو بے بس پایا۔انگڑائی کے اس انداز میں “اُوں” کی بجاۓ”آہ” کی آواز نکلتی ہے جو کہ اس کے انار کے سے ہونٹوں کو واہ کر گئ۔ انار کے دانے بلکل جیسے سیپ سے نکلے موتی۔
      کچھ اور بتائيےنا اپنی ماما کے بارے میں؟اصولی طور پر تو یہ سوال ہم کو آپ سے کرنا چاہیے،بہرکیف ماما جب تک زندہ رہیں ماہرین آثارے قدیمہ اور محققینِ زباں کے چنگل میں رہیں۔بابا اگر ان پہ ٹکٹ لگا دیتے تو آج اس دواخانے کی بجاۓ کسی “کزینو” کے مالک ہوتے اور ہم آپ کو وہاں پہ کسی ساقی کے روپ میں ملتے۔یہ سن کر ہمارےمنہ سے یہ نکل گیا کہ باباجی آپ تو واقعی گدھے نکلے۔اس کی بے اختیار ہنسی نکل گئ اورہماری خفتگی دور کرنے کے لیےاس نے کہا کلملائيے مت “serve” توہم آپ کو یہاں بھی کر سکتے ہیں۔اتنے میں فیکس مشین کی گھنٹی بجی اور گفتگو کا سلسلہ ساقط ہو گیا۔اس نے نسخے کو فیکس مشین سے برآمد کیا اور انجکشن لینے دوسرے کمرے میں چلی گئ۔تھوڑی دیر بعد وہ انجکشن کی شیشی اور سرنج ہاتھ میں لیے کمرے میں داخل ہوئی تو اس کی ہنسی چھوٹ رہی تھی۔چلئےاسٹریچر پر اوندھے منہ لیٹ جائيے۔یہ سن کر ہمارے منہ سے “سی” کی  نکل گئ اور انار سے جیسے سارے دانے گرنے ہی والے ہوں۔دیکھئے یہ انجکشن صرف نرم اور گوشت سے بھرے ہوۓ حصے میں ہی لگایا جا سکتا ہے، اب اگر آپ کے جسم میں کوئی اور حصہ ہے تو بتائيے۔ہم نے جٹ سے بازو اوپر چڑہاۓ اور اپنے سوکھے بازو جتنے پھلائے جا سکتے پھلاۓ۔اس نے اپنی صراحی کى سی گردن کو دائیں بائیں گمایا جس کا مطلب تھا کہ ہمارے “ڈولے”مطلوبہ شرائط پر پورا نہیں  اترتے۔اب اس کے حکم کی تعمیل کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔اس نے سرنج کو انجکشن کی شفاف بوتل کے ربڑ کے منہ میں داخل کیا تو ہماری ایک بار پھر سی نکل گئ۔ ہم نے آنکھیں بند کیں اور اسٹریچر پر اوندھے لیٹ گۓ۔اس نے پتلون کو نیچے سرکایا اور اسپرٹ میں بگوئی روئی مطلوبہ جگہ پہ یوں پیری جیسے کوئی بچہ کسی سنگترے کی پھانگ پر سے اپنے ننےہاتھوں سے مٹی جھاڑ رہا ہو جو کے زمین پر گر گئی ہو۔ہم نے اپنی زبان کو دانتوں میں پیس رکھا تھا اور مٹھیاں بھینچ رکھی تھیں۔تھوڑے ڈھیلے پڑیے ۔ہم نے زبان کو دانتوں کی گرفت سے آزاد کیا اور مٹھیاں کھول ڈالیں۔ہمیں ہلکی سی خراش محسوس ہوئی اور اس کے اگلے ہی لمحےسی کی آواز جو کہ اس دفعہ ہمارے منہ سے بہرحال بلکل نہی نکلی تھی۔اٹھ جائيے اور ذرا سہلائيےاپنے پچھوڑے کو اور ساتھ ہی ایک بھرپور قہقہ پڑا جس کا حصہ بننے کے علاوہ اور کچھ بن نہ پڑھا ہم سے۔
         وہ ہاتھ دھونے چلی گئ اور ہم اس کا انتظار کرنے لگے تاکہ اسکی "مسیحائی "کا معاوضہ ادا کریں اور اپنی راہ لیں۔مگر  وہ واپس آئی تواس کے ہاتھ میں دو پيالے اور ایک صراحی تھی جو کہ اپنی مہک سےاپنے اندرموجود شے کا بھرپور احساس دلاتی چلی گئ۔آپ بھی کیا یاد کریں گے کے بابا نے “کزینو” کیوں نہ کھولا۔اپنے انگور کے کھیت سے ہم نے خود  چنےتھے اپنے ہاتھوں سے اعلیٰ نسل کے انگور کے گچھے اور بابا کے پچاس سالہ تجربے نے اس کو بےمول بنا دیا ہے،اس نے ششیشے کی صراحی سےدونوں پیالوں کو لبا لب بھرتے ہوۓ کہا۔ليجئيےاٹھائے جام اور ٹکرائيے ہمارے جام سے،اس کی کھنک کی آواز سے آپ کےسارے درد شرمندہ ہو کر رہ جائیں گے۔ہوا میں ہلکی سی کھنک کی آواز یک دم مرتش ہو کے رہ گئ اور کمرے میں ہر شے ہمیں محو رقص نظر آئی۔کاغذ کا بےجان ٹکڑا ہماری قسمت پہ رکشاں تھا اورانار کے چھلکےپھٹے تو سارے دانے  قطار بنا ئے دعوتِ طعام دے رہے تھے،تھوڑی دير بعد جھلي ہمارے منہ ميں تھی۔

Saturday, May 26, 2012

جالب اور ہم


          بھلے وقتوں کی بات ہے۔گاوٴں میں روزنامۂ اوصاف کا شمارہ میاں جی کی ہٹی پہ باقاعدگی سے آتا تھا۔اس کے نرخ میاں جی کی “کھتریانہ” طبیعت سے بہت مطابقت رکھتے تھے۔حامد میر اس کے ایڈیٹر تھےاور سرورق پہ جالب کا ایک شعر ہوتا تھا،کونسا اب یاد نہیں۔خیر،پہلے پہل تو ہم یہی سمجھے کہ کاتب بڑا سفاک واقع ہوا ہے اور جان بوجھ کےغالب کو جالب لکھ جاتا ہےمگر جب ماسٹر جی سے(جو کہ ہمارے والد بزرگوار بھی تھے)دریافت کیا تو انہوں نے ناصرف یہ کہ کاتب کو بےقصور قرار دیا بلکہ الٹی ہمیں یہ تلقین بھی کر ڈالی کہ پتر جی جالب سے دور رہو تو فائدے میں رہو گے ورنہ ! اس لفظ "ورنہ" سے آگے ہمارے پر جلتے تھےجس کا تجربہ ہم ماضی قریب و دورمیں کئی بار کر چکے تھے مگر کیا کیجیئے کہ نیوٹن کا قانونِ عمل اور ردعمل چونکہ ہمیں خود ماسٹر جی ہى نے بنفسِ نفیس ازبر کرایا تھا،سو ہم نے پھر تجربے کی ٹھان لی اورجالب سے علیگ سلیگ بڑھا ڈالی۔ تعارف کیا ہوا موصوف کی روح اکثررتجگوں میں ہماری چارپائی کے اردگرد منڈلانے لگی۔ایک رات ہمارے کان میں سرگوشی کر گئی کہ
                                       تیرے سخن سے بغاوت کی بو آتی ہے
                                       اور ابھی چھوٹی ہے عمر تیری زنداں کیلیئے
         جالب تو ہمیں نصیحت کر رہے تھے مگر ہم سمجھے "آمد" ہورہی ہے۔ فوراً  کاغذ قلم نکالا جو اکثر ہم اپنے سرہانے اسی غرض سے رکھتے تھےاورخوف نسیان سے لکھ ڈالا۔ جالب تو نصیحت کر کے چلتے بنے مگر پلکوں کے باہر دیر سے منتظر نیند اندر در آئی۔اُن دنوں ماں جی کی سفارش پر چاشت تک سونے کی اجازت تھی۔ منہ ہاتھ دھو کرہم حسبِ معمول میاں جی کی ہٹی پہ پہنچے۔ میاں جی بڑے سعادت مند واقع ہوۓ تھے۔ ہمیں دیکھتے ہی ہمارے برانڈ کی سگریٹ کا پیکٹ نکالتے،دو سگریٹ جلاتے،ایک اپنے منہ میں دبائے رکھتے اور دوسری ہمیں باقی ماندہ ڈبیا اور اخبار سمیت تھما دیتے۔"تمباکوبینی "اور "اخبار نوشی" کے بعد "چلوکے"کی گلیاں ناپتے ناپتے اکثر "گاڑھی شام" ہو جایا کرتی۔ یہ اصطلاح ہم نے اس لیے گھڑ رکھی تھی کیونکہ ماسٹر جی کی طرف سے شام تک گھر لوٹنے کی سخت تلقین تھی۔ مگر ماسٹر جی نے اس کے مقابلے میں "ہلکی شام" متعارف کروادی۔ یہ گاڑھی،پتلی ، ہلکی اورگہری کی اصطلاحات کچھ اسطرح سے گڈمڈ ہوئیں کہ شام، رات ہونے لگی اور رات ،صبح میں ڈھلنے لگی۔ خیرہمارا گمان جب تک اس یقین (اور ایک حد تک ایمان  بھی)میں نہ بدل جاتا کہ ماسٹر جی کھانسی کی دوا کے دو چمچ لے کر گہری نیند سو چکے ہوں گے،اپنے ہى گھر میں چوروں کی طرح داخل ہو کر اپنی چارپائی کے نیچۓ سے "سالن روٹی" نکال کر کھانے کی ہمت نہیں ہوتی تھی جوکہ ہماری سہولت کے لیے ماں جی رکھ چھوڑتیں۔
          مگر اس رات ہمارا گمان،یقین اور ایمان سبھی دھوکہ دے گئے۔ دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہوتے ہی کیا دیکھتے ہیں کہ ماسٹر جی خراماں خراماں ٹہلے جارہے ہیں اور ہمارا ہی شعر لہک لہک کر پڑھے جارہے ہیں۔ ہمیں دیکھتے ہی اپنے مخصوص پنجابی لہجے میں کہنے لگے"اُؤے،اِدر آ کھلو"ہمیں درست صورتِحال کا ادراک تب ہوا جب ہم نے ماں جی کے چہرے کا رنگ اڑتے دیکھا۔ ماں جی نے سر کے اشارے سے گزارش کی اور ہم نے حکم کی تکمیل کر ڈالی مگر ماسٹر جی کے کچھ زیادہ ہی قریب چلے گئے۔انہوں نے ہمیں اپنی دسترس میں پاتے ہی بائیں ہاتھ سے دائیں کان کے نیچے اس زور سے ایک لگائی کہ ان کے ہاتھ میں بندھی "سیکوفائیو" کے ٹوٹ کر گرنے کی آواز ہمیں بائیں کان سے آئی۔
          اس کے بعد ہم نے اپنے آپ کو چارپائی پہ پایا۔ ماسٹر جی پاس پڑی کرسی پہ اونگھ رہے تھے اورپاس ہی کھانسی کا شربت اور چمچۂ پڑا تھا۔ ماں جی ہمارے سرہانے کچھ زیرلب پڑھ کر پھونکے جا رہیں تھیں۔ ہم نےپھر آنکھیں موندنا چاہا تو اونہوں نے زور سے چٹکی بھری اور چارپائی کے نیچے سے کھانا نکال کر گرم کرنے چلی گئیں۔ ہم بھی ان کے پیچھے ہو لیے ۔ کھانا کھانے کے بعد بجاۓ کسی نصیحت کے انہوں نے ہم سے"بغاوت" سے دستبرداری کا عہد لے ڈالا۔ ہم اِس مبینہ بغاوت سے دستبرداری کی تقریب کے بعد واپس چارپائی پہ آلیٹے۔ مگر نہ نجانے ماں جی کی پھونکوں کا اثر تھا یاماسٹر جی کے تھپڑ کا خوف ،جو ابھی تک کرسی پہ ہی اونگھ رہے تھے،آج جالب کی روح کا کہیں دور دور تک کوئی نام ونشان نہ تھا۔ ہم نے کافی دیر انتظار کے بعد دوبارہ کاغذقلم اٹھایا اور جالب کو نصیحت درنصیحت کر ڈالی کہ۔۔۔۔۔۔۔
                                           بجھا ضرور ہوں پر نزدیک نہ آنا میرے
                                           کيا خبر کسی چنگاری کو پھر ہوش آ جائے