Saturday, May 26, 2012

جالب اور ہم


          بھلے وقتوں کی بات ہے۔گاوٴں میں روزنامۂ اوصاف کا شمارہ میاں جی کی ہٹی پہ باقاعدگی سے آتا تھا۔اس کے نرخ میاں جی کی “کھتریانہ” طبیعت سے بہت مطابقت رکھتے تھے۔حامد میر اس کے ایڈیٹر تھےاور سرورق پہ جالب کا ایک شعر ہوتا تھا،کونسا اب یاد نہیں۔خیر،پہلے پہل تو ہم یہی سمجھے کہ کاتب بڑا سفاک واقع ہوا ہے اور جان بوجھ کےغالب کو جالب لکھ جاتا ہےمگر جب ماسٹر جی سے(جو کہ ہمارے والد بزرگوار بھی تھے)دریافت کیا تو انہوں نے ناصرف یہ کہ کاتب کو بےقصور قرار دیا بلکہ الٹی ہمیں یہ تلقین بھی کر ڈالی کہ پتر جی جالب سے دور رہو تو فائدے میں رہو گے ورنہ ! اس لفظ "ورنہ" سے آگے ہمارے پر جلتے تھےجس کا تجربہ ہم ماضی قریب و دورمیں کئی بار کر چکے تھے مگر کیا کیجیئے کہ نیوٹن کا قانونِ عمل اور ردعمل چونکہ ہمیں خود ماسٹر جی ہى نے بنفسِ نفیس ازبر کرایا تھا،سو ہم نے پھر تجربے کی ٹھان لی اورجالب سے علیگ سلیگ بڑھا ڈالی۔ تعارف کیا ہوا موصوف کی روح اکثررتجگوں میں ہماری چارپائی کے اردگرد منڈلانے لگی۔ایک رات ہمارے کان میں سرگوشی کر گئی کہ
                                       تیرے سخن سے بغاوت کی بو آتی ہے
                                       اور ابھی چھوٹی ہے عمر تیری زنداں کیلیئے
         جالب تو ہمیں نصیحت کر رہے تھے مگر ہم سمجھے "آمد" ہورہی ہے۔ فوراً  کاغذ قلم نکالا جو اکثر ہم اپنے سرہانے اسی غرض سے رکھتے تھےاورخوف نسیان سے لکھ ڈالا۔ جالب تو نصیحت کر کے چلتے بنے مگر پلکوں کے باہر دیر سے منتظر نیند اندر در آئی۔اُن دنوں ماں جی کی سفارش پر چاشت تک سونے کی اجازت تھی۔ منہ ہاتھ دھو کرہم حسبِ معمول میاں جی کی ہٹی پہ پہنچے۔ میاں جی بڑے سعادت مند واقع ہوۓ تھے۔ ہمیں دیکھتے ہی ہمارے برانڈ کی سگریٹ کا پیکٹ نکالتے،دو سگریٹ جلاتے،ایک اپنے منہ میں دبائے رکھتے اور دوسری ہمیں باقی ماندہ ڈبیا اور اخبار سمیت تھما دیتے۔"تمباکوبینی "اور "اخبار نوشی" کے بعد "چلوکے"کی گلیاں ناپتے ناپتے اکثر "گاڑھی شام" ہو جایا کرتی۔ یہ اصطلاح ہم نے اس لیے گھڑ رکھی تھی کیونکہ ماسٹر جی کی طرف سے شام تک گھر لوٹنے کی سخت تلقین تھی۔ مگر ماسٹر جی نے اس کے مقابلے میں "ہلکی شام" متعارف کروادی۔ یہ گاڑھی،پتلی ، ہلکی اورگہری کی اصطلاحات کچھ اسطرح سے گڈمڈ ہوئیں کہ شام، رات ہونے لگی اور رات ،صبح میں ڈھلنے لگی۔ خیرہمارا گمان جب تک اس یقین (اور ایک حد تک ایمان  بھی)میں نہ بدل جاتا کہ ماسٹر جی کھانسی کی دوا کے دو چمچ لے کر گہری نیند سو چکے ہوں گے،اپنے ہى گھر میں چوروں کی طرح داخل ہو کر اپنی چارپائی کے نیچۓ سے "سالن روٹی" نکال کر کھانے کی ہمت نہیں ہوتی تھی جوکہ ہماری سہولت کے لیے ماں جی رکھ چھوڑتیں۔
          مگر اس رات ہمارا گمان،یقین اور ایمان سبھی دھوکہ دے گئے۔ دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہوتے ہی کیا دیکھتے ہیں کہ ماسٹر جی خراماں خراماں ٹہلے جارہے ہیں اور ہمارا ہی شعر لہک لہک کر پڑھے جارہے ہیں۔ ہمیں دیکھتے ہی اپنے مخصوص پنجابی لہجے میں کہنے لگے"اُؤے،اِدر آ کھلو"ہمیں درست صورتِحال کا ادراک تب ہوا جب ہم نے ماں جی کے چہرے کا رنگ اڑتے دیکھا۔ ماں جی نے سر کے اشارے سے گزارش کی اور ہم نے حکم کی تکمیل کر ڈالی مگر ماسٹر جی کے کچھ زیادہ ہی قریب چلے گئے۔انہوں نے ہمیں اپنی دسترس میں پاتے ہی بائیں ہاتھ سے دائیں کان کے نیچے اس زور سے ایک لگائی کہ ان کے ہاتھ میں بندھی "سیکوفائیو" کے ٹوٹ کر گرنے کی آواز ہمیں بائیں کان سے آئی۔
          اس کے بعد ہم نے اپنے آپ کو چارپائی پہ پایا۔ ماسٹر جی پاس پڑی کرسی پہ اونگھ رہے تھے اورپاس ہی کھانسی کا شربت اور چمچۂ پڑا تھا۔ ماں جی ہمارے سرہانے کچھ زیرلب پڑھ کر پھونکے جا رہیں تھیں۔ ہم نےپھر آنکھیں موندنا چاہا تو اونہوں نے زور سے چٹکی بھری اور چارپائی کے نیچے سے کھانا نکال کر گرم کرنے چلی گئیں۔ ہم بھی ان کے پیچھے ہو لیے ۔ کھانا کھانے کے بعد بجاۓ کسی نصیحت کے انہوں نے ہم سے"بغاوت" سے دستبرداری کا عہد لے ڈالا۔ ہم اِس مبینہ بغاوت سے دستبرداری کی تقریب کے بعد واپس چارپائی پہ آلیٹے۔ مگر نہ نجانے ماں جی کی پھونکوں کا اثر تھا یاماسٹر جی کے تھپڑ کا خوف ،جو ابھی تک کرسی پہ ہی اونگھ رہے تھے،آج جالب کی روح کا کہیں دور دور تک کوئی نام ونشان نہ تھا۔ ہم نے کافی دیر انتظار کے بعد دوبارہ کاغذقلم اٹھایا اور جالب کو نصیحت درنصیحت کر ڈالی کہ۔۔۔۔۔۔۔
                                           بجھا ضرور ہوں پر نزدیک نہ آنا میرے
                                           کيا خبر کسی چنگاری کو پھر ہوش آ جائے

1 comment:

  1. ایسے لگ رہا ہے کہ قاری یہ سب دیکھ رہا ہے پڑھ نہیں رہا بہت زبردست منظرنگاری کرتے ہو

    ReplyDelete