Sunday, June 3, 2012

بھرپور مسیحا

      آپ کو جلدی پہنچنا ہو گا۔دواخانہ بند ہونے میں صرف بیس منٹ رہ گۓ ہیں،یہ ليجئيےنسخہ اور یہ رہا دواخانے کا پتہ۔اس نے فون بند کرتے ہی نوٹ پیڈ میں سے ورقع پھاڑتے ہوۓ کہا۔چونکہ آج ہفتہ ہے اس لیے پورے قصبے میں یہ واحد دواخانہ ہے جو کھلا ہے ورنہ آپ کو بہت دور جانا پڑے گا۔دیکھۓ زخم گہرا ہے،لاپروائی مت  گا،ٹیٹنس کا انجیکشن چوبیس گھنٹے کے اندر ضروری ہے،اس نے ساتھ تنبیہ بھی کرڈالی۔
      ہم نے ٹیکسی پکڑی اور پانچ منٹ میں دواخانہ ہمارے سامنے تھامگر داخلی دروازے پہ بند ہےکی تختی ہمارا منہ چڑا رہی تھی حالانکۂ اندر لوگ موجود تھے۔ہمارے دستک دینے پہ کاونٹر پر موجودبابا جی نے ہمیں دیکھنے کے لیے سر کو جکایا تو ان کے دبیز شیشوں والے چشمے خودکار طریقے سے نیچے سرک گۓ اور دوسرے ہی لمحے ان کا منہ جتنا اوپر کی طرف اٹھ سکتا تھا،اٹھا اور ساتھ ہی چشمے اپنی اصل جگہ بیٹھ گۓ جیسے کبھی یہاں سے ہلے ہی نہ ہوں۔بابا جی کی اس حرکت کا یونانی تہذیب میں سیدھا سیدھا مطلب تھا،”چل دوڑ،جوابا ای”
      ہم نے بائیں ہاتھ کی درمیان والی انگلی بابا جی کو یوں دیکھائی کہ اگر اس پر پٹی نہ ہوتی تو ہماری اچھی خاصی پٹائی ہو سکتی تھی۔انہوں نے غصے کے ساتھ لمبی آہ بھری ،دروازے کو اندر سے کھولا اورہمارا استقبال یوں کیا جیسے کسی ويران سراۓ میں ہوٹل کا مالك كسى بھٹکے ہوۓ مسافر كا کرتا ہے۔آئیے جناب،آپ ہی کا انتظار ہو رہا تھا۔بابا جی نےکسی ماریانہ نام کی شے کو آواز دے کر ہماری سیوا کے لیے حکم عنایت فرمایا اور اندر موجود گاہک کو دوا کے متعلق ہدایات بتانے لگے۔اتنے میں بغلی دروازے سے جو لڑکی نما عورت ہمیں اپنی طرف متوجہ نظر آئی،ہمیں اس کےنام پر بےحد حیرانی ہوئی،کیوں کہ “ماریانہ”نام کی جتنی بھی اجناس سے ہمارا واسطہ آج تک پڑ چکا تھا،وہ تمام صنفِ نازک کی اصطلاح پہ کسی دھبے سے کم نہیں تھیں۔
     زین کی بنی(φούστα)جو کہ گھٹنوں سے ذرا نیچے تک اور اگے پیچھے سےبلترتیب چار اور پانچ انچ کے برابر چاک زدہ بھی ہوتی ہے، جسےآپ دیسی زبان میں یونانی دھوتی بھی کہہ سکتے ہیں، میں ملبوس ماریانہ اگر ایڑی والے پہناوے اتار بھی دیتی توہمارے چھ فٹےقد کے برابر پہنچتی تھی۔صحیح النسل یونانی عورتیں عموماً اتنی درازقد نہیں ہوتیں مگر ماریانہ کے چہرے کے خدوخال اور سبز آنکھیں اس کے والدین کے قدیم یونانی ہونے کی گواہی دے رہیں تھیں۔سرخی پاوٴڈر اور بالی بوندیوں سے بےنیاز ماریانہ کے ناک میں ہلکاباریک سا کوکا جو عموماً یورپی عورتیں اپنی توہین سمجھتیں ہیں،اس کے تلوار جیسے پتلے اور ہلکے سے ٹیڑے ناک کا باقاعدہ حصۂ معلوم ہوتا تھا۔نسخۂ دیکھائیے،ڈاکٹر صاحب نے کونسا انجیکشن تجویز کیا ہے آپ کے لیے؟ہم نےفٹ سے نسخہ ماریانہ کو پکڑا دیا۔اس کے خوبصورت ہاتھوں کی لمبی لمبی انگلیوں کی پوروں جن پہ بغیر پالش کے ناخنوں کے نیچے سے لہو جھانک رہا تھا،کی گرفت میں موجود اس کاغذ کے بےجان ٹکڑے پہ ہمیں بےاختیار رشک آگیا۔
      یہ انجکشن تو ہمارے پاس نہیں ہے،نسخۂ تبدیل کروانا پڑۓ گا۔اگر آپ چاہیں تو۔ہماری تمام تر توجعہ  اس کےتازہ کھلے ہوے گلاب کی پنکھڑیوں جیسے ہونٹوں پہ مرکوز تھی جن کے ہلنے سے اس کے رخساروں پہ دلکش لکیریں نمودار ہوتی تھیں اورفضا میں دلفریب ترنم پیدا ہوجاتا تھا-ہمارے چاہنے نہ چاہنے سے کیا ہوتا ہے،اور کوئی بھی جراثیم کش انجکشن لگا دیجۓ،نسخۂ تبدیل کروانے کے لیے دوبارہ ڈاکٹر صاحب کے پاس جانا پڑے گا اور واپسی تک بابا جی ہمارا انتظار کیونکر کریں گے بھلا،وہ تو تھوڑی دیر پہلے تک ہمیں اندر ہی نہیں گھسنے دے رہے تھے۔ہم نے ایک ہی سانس میں اپنی حکیمانہ راۓاور بابا جی کے رویے جو کہ بلکل جائز تھا کا اظہارایک ہی سانس میں کر دیا تو وہ بڑی حیران ہوئی۔آپ اتنی اچھے لہجے میں یونانی کیسے بول لیتے ہیں۔اس سے پہلے کہ ہم اپنا “روب” جمانے کے لیے کچھ اورکہتے،بابا جی کی آواز آئی۔”ماریانہ بیٹا، اس لنگُور کو جلدی فارغ کرو دیر ہو چلی ہے”
       باباجی کےان ارشادات نے ہمارے جبلی تقاضوں کے عین مطابق ہمارےقلب و ذہن پہ وہی اثرات چوڑےجواس گدھے کےہنہنانۓسے ہمارے اس سحر کے خواب کے ٹوٹنے پر پیدا ہوۓ تھےجس میں ہم جنت کے باغات میں اپنی حورین کے ساتھ محو گفتگو تھے اور ہم نے جبلی تقاضوں کے عین مطابق اس کے جاہ وقوعہ کی تلاش کر کےاس میں اور اپنے میں تمام ترفرق کو بلاۓ طاق رکھ چوڑا تھا ۔ باباجی کاش آپ گدھے ہی ہوتے
        آپ چلیں،مجھے تھوڑی دیر ہو جاۓ گی،آپ کے اس “لنگور” کو اب بےیارومددگار بھی تونہیں ناچھوڑا جا سکتا۔یونانی لوگوں نے غیر ملکیوں سے اتنا گلنا ملنا کب سے شروع کر دیا ہے؟ہم نےحساب پورا کرنے کے لیےہکا سا طنز کر ڈالا، ہمارے والد بزرگوار جو ابھی آپ کی “تعریف” کر رہے تھے جوانی میں بڑے مہم جو قسم کے واقع ہوئے تھے،آپ کے ملک میں آباد کیلاش قبیلے کی ایک حسینہ پہ مر مٹے اور بیاہ کے یہاں لے آۓ،انہیں کے بطن سے ہمارہ جنم ہوا ہے،اب جنیاتی جراثیم مرتے مرتے وقت تو لیتے ہیں نا۔یہ بات ہمارے لیے کسی جھٹکے سے کم نہ تھی۔پھر تو آپ ہماری زبان جانتی ہوں گئ۔بلکل بھی نہیں،بابا نے ہمیں ماما کے قباہلی اثرات سے بچانے کے لیے ہمیں بورڈنگ اسکول میں ڈال دیا تھا اور ویسے بھی کیلاش قبیلے نے اپنی رسم ورواج کے علاوہ اپنی زبان کو بھی کسی حد تک محفوظ رکھا ہے۔
        اس نے نسخۓ پہ لکھے ہوۓ نمبر پہ فون کیا اور ڈاکٹر صاحب کواصل صورت حال سے آگاہ کیا،ڈاکٹر صاحب نے نیا نسخۂ تجویز کر دیا اور اس سے فیکس نمبر پوچھا تاکہ وہ  نسخےکو فیکس کر سکیں اور ہمیں لگنے والے انجکشن کو باقاعدہ قانونی حیثیت حاصل ہو سکے-اس نے فون بند کر کے ہمیں ساری گفتگو کا خلاصہ بیان کیا کہ ڈاکٹر صاحب اور اس کے درمیان کیا گفتگو ہوئی ہےجو کہ ہم پہلے ہی سن چکے تھے ۔نئی بات صرف یہ تھی کہ ڈاکٹر صاحب کی مددگار اسسٹنٹ کہیں غائب ہے اور آتے ہی فیکس کر دے گی۔اس سے بڑی خوش خبری ہمارے لیے بھلا کیا ہو سکتی تھی۔اس نے ہفتے بھر کی تھکن کو ذرا سا دلاسا دینے کیلیۓ ایک بھر پور انگڑائی لی تو ہم نے دنیا بھر کے تمام رنگین مزاج شاعروں کو بے بس پایا۔انگڑائی کے اس انداز میں “اُوں” کی بجاۓ”آہ” کی آواز نکلتی ہے جو کہ اس کے انار کے سے ہونٹوں کو واہ کر گئ۔ انار کے دانے بلکل جیسے سیپ سے نکلے موتی۔
      کچھ اور بتائيےنا اپنی ماما کے بارے میں؟اصولی طور پر تو یہ سوال ہم کو آپ سے کرنا چاہیے،بہرکیف ماما جب تک زندہ رہیں ماہرین آثارے قدیمہ اور محققینِ زباں کے چنگل میں رہیں۔بابا اگر ان پہ ٹکٹ لگا دیتے تو آج اس دواخانے کی بجاۓ کسی “کزینو” کے مالک ہوتے اور ہم آپ کو وہاں پہ کسی ساقی کے روپ میں ملتے۔یہ سن کر ہمارےمنہ سے یہ نکل گیا کہ باباجی آپ تو واقعی گدھے نکلے۔اس کی بے اختیار ہنسی نکل گئ اورہماری خفتگی دور کرنے کے لیےاس نے کہا کلملائيے مت “serve” توہم آپ کو یہاں بھی کر سکتے ہیں۔اتنے میں فیکس مشین کی گھنٹی بجی اور گفتگو کا سلسلہ ساقط ہو گیا۔اس نے نسخے کو فیکس مشین سے برآمد کیا اور انجکشن لینے دوسرے کمرے میں چلی گئ۔تھوڑی دیر بعد وہ انجکشن کی شیشی اور سرنج ہاتھ میں لیے کمرے میں داخل ہوئی تو اس کی ہنسی چھوٹ رہی تھی۔چلئےاسٹریچر پر اوندھے منہ لیٹ جائيے۔یہ سن کر ہمارے منہ سے “سی” کی  نکل گئ اور انار سے جیسے سارے دانے گرنے ہی والے ہوں۔دیکھئے یہ انجکشن صرف نرم اور گوشت سے بھرے ہوۓ حصے میں ہی لگایا جا سکتا ہے، اب اگر آپ کے جسم میں کوئی اور حصہ ہے تو بتائيے۔ہم نے جٹ سے بازو اوپر چڑہاۓ اور اپنے سوکھے بازو جتنے پھلائے جا سکتے پھلاۓ۔اس نے اپنی صراحی کى سی گردن کو دائیں بائیں گمایا جس کا مطلب تھا کہ ہمارے “ڈولے”مطلوبہ شرائط پر پورا نہیں  اترتے۔اب اس کے حکم کی تعمیل کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔اس نے سرنج کو انجکشن کی شفاف بوتل کے ربڑ کے منہ میں داخل کیا تو ہماری ایک بار پھر سی نکل گئ۔ ہم نے آنکھیں بند کیں اور اسٹریچر پر اوندھے لیٹ گۓ۔اس نے پتلون کو نیچے سرکایا اور اسپرٹ میں بگوئی روئی مطلوبہ جگہ پہ یوں پیری جیسے کوئی بچہ کسی سنگترے کی پھانگ پر سے اپنے ننےہاتھوں سے مٹی جھاڑ رہا ہو جو کے زمین پر گر گئی ہو۔ہم نے اپنی زبان کو دانتوں میں پیس رکھا تھا اور مٹھیاں بھینچ رکھی تھیں۔تھوڑے ڈھیلے پڑیے ۔ہم نے زبان کو دانتوں کی گرفت سے آزاد کیا اور مٹھیاں کھول ڈالیں۔ہمیں ہلکی سی خراش محسوس ہوئی اور اس کے اگلے ہی لمحےسی کی آواز جو کہ اس دفعہ ہمارے منہ سے بہرحال بلکل نہی نکلی تھی۔اٹھ جائيے اور ذرا سہلائيےاپنے پچھوڑے کو اور ساتھ ہی ایک بھرپور قہقہ پڑا جس کا حصہ بننے کے علاوہ اور کچھ بن نہ پڑھا ہم سے۔
         وہ ہاتھ دھونے چلی گئ اور ہم اس کا انتظار کرنے لگے تاکہ اسکی "مسیحائی "کا معاوضہ ادا کریں اور اپنی راہ لیں۔مگر  وہ واپس آئی تواس کے ہاتھ میں دو پيالے اور ایک صراحی تھی جو کہ اپنی مہک سےاپنے اندرموجود شے کا بھرپور احساس دلاتی چلی گئ۔آپ بھی کیا یاد کریں گے کے بابا نے “کزینو” کیوں نہ کھولا۔اپنے انگور کے کھیت سے ہم نے خود  چنےتھے اپنے ہاتھوں سے اعلیٰ نسل کے انگور کے گچھے اور بابا کے پچاس سالہ تجربے نے اس کو بےمول بنا دیا ہے،اس نے ششیشے کی صراحی سےدونوں پیالوں کو لبا لب بھرتے ہوۓ کہا۔ليجئيےاٹھائے جام اور ٹکرائيے ہمارے جام سے،اس کی کھنک کی آواز سے آپ کےسارے درد شرمندہ ہو کر رہ جائیں گے۔ہوا میں ہلکی سی کھنک کی آواز یک دم مرتش ہو کے رہ گئ اور کمرے میں ہر شے ہمیں محو رقص نظر آئی۔کاغذ کا بےجان ٹکڑا ہماری قسمت پہ رکشاں تھا اورانار کے چھلکےپھٹے تو سارے دانے  قطار بنا ئے دعوتِ طعام دے رہے تھے،تھوڑی دير بعد جھلي ہمارے منہ ميں تھی۔

2 comments:

  1. kia main ye pooch sakta hoon k yeh konsi kitaab se iqtibaas hai ? :)

    ReplyDelete
  2. a real interesting one u r a story writer

    ReplyDelete