Saturday, September 8, 2012

بھنور

           ساون کی جھڑی کو آج دوسرا دن تھا اور چکنی مٹی  کےسارے رستے جو اپنی سختی کےاعتبار سے تارکول کی  بنی پکی سڑک سے کسی طور کم نہیں ہوتے، "نونے حلوائی" کے ہاتھ کی بنی تازہ  برفی کی طرح نرم ہو چکے تھے۔ سائیکل کو گھسیٹتے گھسیٹتےمیں تھک چکا تھا اور چوہدری کے کہنے کے باوجود  اس کو رستے میں کسی کے ہاں چھوڑنے پر تیار نہیں تھا۔آخر کار اسےغصہ آیا اور اس نے سائیکل مجھ سے چھین کر رستے میں ایک ٹیوب ویل کے حوض میں پھینکی اور بستہ اپنے کاندھوں پہ چھڑہاتے ہوئے کہنے لگا کہ چل شرط لگاتے ہیں کہ کون پہلے گھر پہنچتا ہے۔ہم دونوں نے کھیڑیاں اتاریں اور لنگوٹ کس کر ایک دو تین دُھڑکی لگا دی۔ دس بارہ منٹ میں ہمارے پسینے یوں چوٹ رہے تھے جیسے کسی پرنالےکے نیچھے سے ابھی ابھی نکلے ہوں۔اِس دوڑ کا فیصلہ توکوئی نہیں ہو سکا تھا مگر گاؤں تک کا فاصلہ ضرور کم ہو گیا۔ سامنے بند تھا اور اُس کے اس طرف  ندی کنارے ہماراگاؤں۔اُسےگھر چھوڑنے کے بعد میں سیدھا ڈھیرے پہ  جانے والی پگڈنڈی کو ہونے ہی لگا تھا کہ اُس طرف سے ابّا دوڑتا ہوا نظر آیا۔ابّے کو دوڑتا ہوا دیکھ کر پہلے تو میں ذرا سا ٹھٹکا  اورساتھ ہی اُس کی طرف دوڑ لگا دی ۔ابّےنے ہاتھ کے اشارے سے تسلی دیتے ہوئے  وہیں رکنے کو کہا،لیکن میں کب رکنے والا تھا،سیدھا اُس کے پاس جاکر کے ہی دم لیا۔ ابّے کو تسلی دے کر وہیں سے واپس بھیج میں اُلٹےپاؤں چوہدری کی طرف ہو لیا۔ وہ ہاتھ میں صابن تولیہ لیے غسل خانے کی اورجا ہی رہا تھا کہ مجھ گھبرایا ہوا دیکھ کر اک دم ٹھٹک گیا۔"تو جلدی سےاتھری لے کر سیدھا ندی کی طرف نکل ،میں ماں جی کو خبرکر کے ابھی آیا"چوہدری مجھے ہدایت نامہ دے کراندر چلا گیا اور میں واپس ڈھیرے کی طرف ہو لیا۔
           سب سے پہلے کس گاؤں میں اعلان کروایا جائے چوہدری؟ میں نے اتھری کی لگام  تھامےکہا۔"اُس کی کوئی ضرورت نہیں،بس توارد گرد نظر دوڑاتا رہیں اوردعا کر کہ بگا انہیں نکال دوسرے کنارے نہ لے گیا ہو "اُس نے پاؤں رکاب سے نکال کر مجھے ہاتھ دیتے ہوئے کہا ۔میں اُچھل کر اُس کے پیچھے جمع کر بیٹھ  لیا۔اگرچہ ندی کے ساتھ باقاعدہ کوئی سڑک تو نہیں تھی مگر ریت بھرنے واسطے آنے والے ٹریکٹر ٹرالیوں کی وجہ سے اس کے کنارے کنارے دو متوازی پگڈنڈیاں بن چکیں تھیں،جو بلکل ریل گاڑی کی پٹریوں کی طرح ساتھ ساتھ چلتیں تھیں اور ان کے درمیان سوکھی ہوئی گھاس جسے ساون کی پہلی برسات نے دھو کرنکھارتو دیا تھا مگر اس کی قسمت میں پھر جڑ سےپھوٹنا ہی لکھا تھا،اُسی کے اوپر اتھری چاروں پیرہوئی ہوا سے باتیں کر تی جا رہی تھی۔ کوئی بیس پچیس منٹ بعد ندی  سیدھی نہر میں جا  کر گم ہو گئی اور اس کے ساتھ ہی پگڈنڈیاں سولنگ کی بنی سڑک میں بدل گئیں جس پہ تیز رفتار اتھری کی کھریاں زخمی ہونے کا خطرہ تھا اس لیے میں نے چوہدری کو رفتار کم کرنے کو کہا جس کو اُس نے بلا چون و چرا  مان لیا اور تھوڑی دیر بعد ہمارے سامنے سوہنی کا بپھرا ہوا چناب تھا"اِس سے آگے جانے کی تو کوئی تُک نہیں بنتی"۔چوہدری نے اتھری کی لگام کھینچتے ہوئےاکھڑے ہوئے لہجے میں  کہا۔"میرے خیال سے تو  تیر کر اس کنارے ہو لے اور وہاں سے واپس  کی طرف ہر گاؤں کی مسیت میں اعلان کرواتا جا اور میں اِس طرف سے "میں نے کہا۔ چوہدری نے مجھے گھور کر دیکھا اور کہنے لگا کہ تیرا دماغ تو ٹھکانے ہے کہ نہیں؟یہ نہر ہے اور چناب میں گرتے ہوئے اِس کا تیز بہاؤ مجھے بھی ساتھ بہا لے جائے گا۔ اگر میں بہہ گیا تو بےبے نے تجھے بھی  عین اسی جگہ لا کر بہا دینا ہےاور اگر بفرضِ محال تو بہہ گیا تو بھی اُس  نے مجھے  بہا  دینا ہے۔"میں نے حسبِ روایت اس کی کہی،اَن کہی کرتے ہوئے اتھری کی وکھی  گدگدای اور اِ س سے پہلے کہ وہ بدکتی ، شتابی سے شڑاپ مار کر  اُس سے نیچے کُود لیا اور کھیڑیاں اتار راجستانی عورتوں کی طرح بازوں پہ ونگوں کی طرح چڑھا لنگوٹ کسنے لگا۔ چوہدری کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کرئے تو کیا کرئے،اتھری واقعی اتھر چکی تھی اور اُس سے سنبھائی نہیں جا رہی تھی۔اس نے گھبراہٹ میں اُس کی باگیں دائیں طرف کھینچ رکھیں تھیں اور خود دائیں طرف جھکا مجھ پہ برس رہا تھا۔اتھری اُس کی چنگاڑ سے اور بھی ہنہناتی اور بدھکتی جا رہی تھی۔
          اِس سے پہلے کہ نہر کا تیز بہاؤ،میرے  اِسے پار کرنے کےارادے میں کوئی شگاف ڈالتا،میں نے کنارے کی طرف بڑھنا شروع کر دیا۔ پیچھے سے چوہدری کی چنگاڑ جو کہ اب تقریباً  ترلے واسطوں میں بدل چکی تھی کےساتھ اتھری کے ہنہنانے کی آواز کسی تعطل کے بغیر میری سماعت پہ بلکل ویسا  ہی اثر ڈال رہی تھی جیسے  مسجد کے ہمسائے پہ موذن کی اذان ۔ میں جوں جوں نہر کی طرف بڑھ رہا تھا،دونوں کی آوازیں نہر کے تیز بہاؤ کے شور میں ڈوبتی جا رہی تھی مگر دھیرئے دھیرئے  اِن دونوں  میں ایک  تیسری آواز بھی ابھرتی چلی گئی جس کی مانوسیت نے میری سمت خود کار طریقے سے اپنی طرف موڑ لی ۔ بگا بھی چوہدری اور اتھری کے ساتھ  دائرے میں اس طرح دوڑ ےجا رہا تھا جیسے کنویں پہ رہٹ گیڑتےہوئے نیچے والا بیل ۔ تھوڑی دیر تو میں  کھڑا یہ منظر دیکھ کر محظوظ ہو تارہا مگر جوں ہی چوہدری کو احساس ہوا کہ بگے کے ساتھ میں بھی وہیں موجود ہوں تو اُس کے حواس بحال ہوئے اور جھٹ سے اتھری کو روک کر نیچے اتر آیا۔ مگر اِس سے پہلے کہ وہ  اتھری کو چھوڑ کر مجھے بھگاتا،میں نے بگے کو ششکاری دلائی اور بھاگتے ہوئے اُس کے پیچھے ہولیا۔
          قسمت والے ہو پتر جو مال ڈنگر سہی سلامت مل گیا ہے،ورنہ جب چھوٹی اور بڑی بھمبرایک ساتھ اِس منافق جہلمی  نہر میں گرتیں  ہیں توچناب بھی گھبرا جاتا ہے۔اب ڈھیرے جا کر جب پہلی بار دودھ دوہنا تو بغداد والے پیر کے نام کی کھیر پکا کر پورے چلوکے میں ضروربانٹنا۔اب دیکھو اِس نِما شام کے ویلےتو تمہیں واپس لوٹتے کالی رات ہو جائے گی اور جھڑی کا بھی کوئی اعتبار نہیں کب لگ جاتی،کب رک جاتی ہے،اِس لیے گھوڑی کی کاٹھی لگام اتارو اور کپڑے بدل کر آج یہیں ٹک رہو اور سویرے لو لگتے ہی اپنا مال ڈنگر لے جانا۔ کیا خیال ہے وائی فیرچھورو؟بابا جی نے حقے کی نے منہ میں دباتےہوئے مشفقانہ لہجے میں کہا اورایک لمبا کش لگا کر کھانسنے لگے۔ باپو جی مجھے تو لازمی جانا ہو گا،ابّا اور چاچا  پریشان ہو رہے ہوں گے،چوہدری یہیں ٹک رہتا ہے اورصبح سویرے میں آ جاؤں گا  ابّے کو لے کر اور وہ چراتے چراتے واپس لے جائیں گے مال ڈنگر،ہم دونوں نے سکول بھی تو جانا ہے ناں سویرے۔"میں نے چوہدری کی طرف مستفسرانہ نگاہ ڈالتے ہوئے بابا جی سے کہا۔"اؤہ پتر ٹھہرتو سہی،کوئی چاۂ پانی تو پیتا جا،بھلا ایسے بھی کوئی کھڑے کھڑے جاتا ہے؟بابا جی  نے حقے کی نڑ اِس کی چلم کے نیچے کی دونڑیوں کے درمیان اڑس کر کہا اور مہمان خانے سے اُٹھ کر زنان خانے میں چلے گئے۔
          دیکھ اوئے کمینے تو سویرے مت آئیں،چاچے کو بھیج دینا اور خود سکول چلے جانا۔ مجھے پتہ تجھے سکول سے زیادہ سائیکل کی فکر کھائے جا رہی ہے۔ بابا جی کے جاتے ہی چوہدری نے چارپائی سے سرہانہ لے کرکہنیوں کے نیچے رکھ کر حقے کی نے منہ میں دباتے ہوئے میرے طرف دیکھ کر کہنی مارتے ہوئے کہا۔ خبیثا  سارے سرہانے کی مت مار دی تو نے گیلا کر کے،میں نے اُس کی کہنیوں سے سرہانہ کھینچتے ہوئے کہا اور اتنے میں بابا جی نے زنان خانے کا دروازہ  وا کیا اور پیچھے کی سمت یوں گویا ہوئے لئیا ادھرپتر،امجھے پکڑا دے ٹرے اور آج کوئی ککڑشکڑ پکائیں،مہمان آئے ہیں "بابا جی نے دروازے کے پیچھے سے نمودار ہونے والے ساوے کانچ کی چوڑیاں میں چھپےلمبے لمبے بازوؤں میں سے نمودار ہونے والے نازک ہاتھوں سے چائے کی طشتری پکڑ کر پاؤں کی ٹھوکر سے دروازے کی کواڑی بند کرتے ہوئے کہا۔ اِس سے آگے کی کہانی اب چوہدری خود سنائے گا،میں نے فقط چائے پی اور اتھری پہ چڑھ گہری شام اور ہلکی رات کے درمیان گھر پہنچا تو چاچا جی ڈیرے  کے داخلی دروازے کے سامنے پہرےداروں کی طرح ٹہلے جا رہے تھے  ۔ انہیں ساری بات بتا کر میں نے غسل کے بعد کھانا کھا کر سونے کی کی، سویرے لو لگنے سے پہلے ٹیوب ویل کے حوض سے سائیکل پکڑی اور سکول چلا گیا۔
         فلک شیر کے جانے کے بعد،بابا جی نے  میرا سرتا پا جائزہ  لیتے ہوئےچائے کے خالی برتن اٹھا ئے اور زنان خانے میں چلے گئے۔ ان کے جانے کے بعد میرے دل میں اچانک حقہ چھوڑ کر سگریٹ سلگانے کی خواہش نےانگڑائی لی۔جس کی تکمیل کے لیے میں نے جیب سے سگریٹ کی ڈبیہ نکالی جو کہ ماچس کی ڈبیہ کے ساتھ بھیگ چکی تھی مگر  سارے کے سارے محفوظ سگریٹ دیکھ کر مجھے ایک اطمینان سا محسوس ہوا اور میں نے ایک سگریٹ نکال کر،چلم میں دہکتے ہوئے انگارے سے اُسے سلگایا اور گہرا کش لگانے کے بعد خود کو انتہائی تھکا ہوا محسوس کیا۔دن بھر بارش میں بھیگنے اور اتھری کی سواری سےمجھے ہلکا ہلکا تپ چڑھنا شروع ہو گیا تھا۔میں نے سگریٹ کا آخری کش لگا کر اُسے چلم میں پھینکا اور اُس سے اُٹھنے والے بدبودار دھویں کی وجہ سے خود کو کوسنے لگا۔اتنے میں بابا جی ایک ہاتھ میں کُرتا پاجامہ اوردوسرے ہاتھ میں ایک عدد صابن تولیہ لیے پھر نمودار ہوئے اور مجھے غسل خانے کا راستہ بتاتے ہوئے تھما کر  وہیں بیٹھ رہے۔ غسل خانہ کافی کشادہ تھا اور اوپر سے ڈھکا ہوا بھی تھا مگر  مجھے ہلکے ہلکے چڑھتے ہوئے تپ نے غسل کے بجائے "لہوری نہانے" پہ مجبور کرنے کی کوشش کی ۔جوں ہی میں نے  مگ کو پانی کے ٹپ  میں ڈالا تو  ہلکے نیم گرم پانی کو  محسوس کر کے سوائے اُسے اپنے اوپر اُنڈیلے کے کوئی چارہ نہیں رہا تھا۔
       کھانا کھانے کہ بعد جو کہ انتہائی لذیذ تھا،بابا جی نے اِدھر اُدھر کی ہانکنا شروع کر دیں اور میں اُن کی ہاں میں ہاں ملاتا رہا یہاں تک کہ میری بگڑتی ہوئی حالت دیکھتے ہوئے بابا جی نے مجھ پہ ترس کھایا اورزنان خانے میں آواز دے کر بستر لگانے کی ہدایت کی  جس کے جواب میں فوراً سوال کیا گیا کہ کہاں لگا ئے جائیں بستر؟"پُتر،یہیں مہمان خانے میں،چھور کو تپ چڑھ رہا ہے اس لیے اور میرے لیے باہر برآمدے میں ،یہاں تو اچھا خاصا حبس ہو رہا ہے۔بابا جی کہتے ہوئےاٹھےاور مہمان خانے کے خارجی دروازے سے باہر  چلے گئے تو میں نے بھی اُن کے ساتھ ہی باہر جانا مناسب سمجھا،حالنکہ مجھ سے اُٹھا نہیں جا رہا تھا۔بگا مجھے دیکھتے ہی دوڑتا ہوا آیا اور پاؤں میں لوٹ پوٹ ہونے لگا۔میں نےاس کا سر کھجانے کےلیے  جھکنا چاہا تو وہیں گر کر بے ہوش ہو گیا۔
      جب میری آنکھ کھلی تو  خود کو بستر پہ پایا۔فضا میں کانچ کی چوڑیوں کی کھنک یوں آ رہی تھی جیسے بہت سارے موروں کے پاؤں میں جھانجھریں ڈال کر نچایا جا رہا ہو۔کوئی میرے پاؤں کے تلوئے  رگڑ رہا تھا اور بابا جی  میرے منہ پہ پانی کے چھینٹے مار  رہے تھے۔میرے سارے بدن پہ کپکپی طاری تھی اور  پہلو تک بدلنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔بابا جی نے میری آنکھیں کھلی دیکھیں تو ربّ کا شکر ادا کرتے ہوئے میری خیریت معلوم کرنے لگے۔ جس کا جواب میں صرف آنکھیں موند کرہی دے پایا۔مجھے سخت پیاس  لگی رہی تھی ۔میں نے پانی مانگنے کے لیے آواز نکالنا چاہی تو پہلی کوشش میں صرف منہ ہی کھلا ،مگر دوسری بار ہمت  کر کے میں نے لفظ "پانی "کو  رندھی ہوئی آواز میں ادا کر ہی دیا۔اِک دم سے ناچتے ہوئے مور جیسے آہستہ آہستہ کسی نامعلوم سمت چلے گئےاور تھوڑی دیر بعد جب مجھے پھر وہی کھنک سنائی دی تو میرے منہ کے ساتھ مٹی کا پیالہ لگا ہوا تھا ،جسے میں غٹ غٹ آب حیات سمجھ کر پئی گیا اور پھر وہیں ڈھیر ہو گیا ۔بابا جی کسی کو کہہ رہے تھے کہ اِس کے ماتھے پہ پٹیاں رکھنی پڑیں گئیں،ورنہ یہ صبح تک دم دے جائے گا۔
      جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے،فلک شیر کا یہ معمول رہا ہے کہ وہ  فجر کی نماز واسطے آ کر مجھے جگا کر اپنے ساتھ  مسجد لے جایا کرتا تھا اور اِس کے پہلے ہی آوازے پہ میرا جی چاہتا تھا کہ اُس کا گلہ ہی گھونٹ دوں۔حسب معمول  مجھے فلک شیر کی آواز سنائی دی اور میں خلافِ توقع ہڑ بڑا کر اُٹھ بیٹھا۔مگر فلک شیر کا آس پاس کہیں نام و نشان تک نہیں تھا۔ہاں البتہ باہر سے اتھری کے ہنہنانے کی آواز ضرور آ رہی تھی۔نیند سے بیدار ہونے کے بعد میرا ہاتھ ہمیشہ چارپائی کے ساتھ پڑے  ٹیبل کی طرف بڑھتا ہے جہاں سے گھڑی اور تعویز اٹھا کر میں  بلترتیب ہاتھ اور گلے میں پہن لیتا ہوں۔مگر  اُس صبح میرے ہاتھ صرف تعویز ہی آیا،گھڑی غائب تھی۔میں نے اٹھ کر گھڑی کو اِدھر اُدھر ڈھونڈنا چاہا تو کمزوری کی وجہ سے پھر بستر پہ گر گیا۔رات بھر کیا ہوا ،مجھے کچھ یاد نہیں تھا۔میں نے تعویز کو گلے میں ڈالنے کے لیے  سر کو ذرا سا جھکایا تو  گریبان کے سارے بٹن ٹوٹے ہوئے تھے۔میں چلانگ مار کر بستر سے اُٹھا تو فرش پہ بکھرے ہوئے ساوے کانچ کا ٹکڑا پاؤں میں گھس کر اِسے  لہو لوہان کر گیا۔تکلیف کی وجہ سے میں وہیں زمین پر بیٹھ کر اُسے نکالے لگا تو اچانک میری نظر ٹوٹی ہوئی گھڑی پہ پڑی جو کے چارپائی کے پائےدان کے ساتھ لپٹی پڑی تھی اور اُس کے ساتھ ہی ایک جگ گلاس پڑا تھا۔جسے دیکھ کر مجھے شدید پیاس محسوس ہوئی۔میں نے  گلاس کی بجائے جگ کو اُٹھایا اور اُس سے منہ لگا کر پانی پینا چاہا  تو وہ مجھے کوئی اور ہی شے محسوس ہوئی،جو کہ پانی ہرگز نہیں تھا۔میں نے جگ کو واپس وہیں رکھا اور گھڑی اٹھا کر وقت دیکھا تو آٹھ بج رہے تھے۔میں ہڑبڑا کر مہمان خانے کے خارجی دروازے سے باہر نکلا اور اتھری کی لگام تھامے بوجھل قدموں سے پگڈنڈی پہ چل پڑا جو مجھے عین اُسی مقام پہ لے گئی جہاں  ندی آ کر نہر میں گرتی تھی۔
      ندی کا پانی نتر کر چشمے کا سالطیف ہوچکا تھا اور مجھے اپنا وجود ایسا کثیف لگا جیسے کل طغیانی میں یہی پانی گہرا گندھلا تھا۔میں نے اتھری کو وہیں کنارے پہ چھوڑا اور ندی میں اترتا چلا گیا۔یہاں تک کہ پانی میرے لبوں کو وا کر کے میری  پیاس کو بجھاتا چلا گیا۔ٹھنڈےپانی کو میں نے دیر تک اپنے جسم پر سے گزرنے دیا جوکہ بخار کے اتر جانے کے بعد کافی کمزور پڑ چکا تھا،مجھے  یوں محسوس ہو رہا تھا جیسےپانی میرے جسم میں سے چھن کر گزر رہا ہواور ساری کثافتیں اپنے ساتھ بہا لیے جا رہا ہو۔ جب میں نے پورے جسم پہ کپکپاہٹ محسوس کی تو دھیرے دھیرے واپس عین اُسی مقام پہ آ نکلا جہاں پہ ندی آ کر نہر میں گرتی تھی۔۔وہاں پہ ایک بھنور بن چلی تھی ،جس کے شور میں سےمجھے بابا جی کی آواز مسلسل گونجتی سنائی دے رہی تھی کہ پتر،جب یہ بھمبر،اِس منافق جہلمی دریا میں گرتی ہے تو چناب بھی ایک دفعہ گھبرا جاتا ہے۔اتنے میں  ندی کے صاف و شفاف پانی میں کنول کا ایک پھول تیرتا ہوا آیا اور بھنور میں گرتے ہی کہیں  گم ہو کر رہ گیا اورمیں دیر تک وہاں بیٹھےاُس کے ابھرنے کا انتظار کرتا رہا۔

2 comments: